والارتثاث ان یأکل او یشرب او یداوی او یبقی حیا حتی یمضی علیہ وقت صلوة وھو یعقل وینقل من المعرکة حیا]٤٤٤[ (٦) ومن قتل فی حد او قصاص غسل و صلی علیہ ]٤٤٥[(٧) ومن قتل من البغاة او قطاع الطریق لم یصل علیہ۔
باب الرتث الخ ج رابع ص ٢٥،نمبر٦٨٢٠) اس اثر میں حضرت عمر کو زخم لگنے کے بعد انہوں نے کھایا پیا ہے،اس لئے ان کو غسل دیا گیا۔جس سے معلوم ہوا کہ زخم لگنے کے بعد جس نے دنیا سے فائدہ اٹھایا اس کو غسل دیا جائے گا۔
]٤٤٤[(٦)جو حد قصاص میں قتل کیا گیا اس کو غسل دیا جائے گا اور اس پر نماز پڑھی جائے گی۔
وجہ غسل تو اس لئے دیا جائے گا کہ وہ شہید نہیں ہے بلکہ عام میت کی طرح ہے۔اور نماز اس لئے پڑھی جائے گی کہ یہ مؤمن ہے (٢) حضرت ماعز اسلمی جو حد میں قتل ہوئے تھے ان پر نماز جنازہ پڑھی گئی تھی(ابو داؤد شریف، باب الصلوة علی من قتلہ الحدود ج ثانی ص ٩٨ نمبر ٣١٨٦) (٣)جہینہ کی عورت زنا کی حد میں رجم کی گئی تو آپۖ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی عن عبد اللہ بن بریدة عن ابیہ فی قصة الغامدیة التی رجمت فی الزنا قال النبی ۖ فوالذی نفسی بیدہ لقد تابت توبة لو تابھا صاحب مکس لغفر لہ ثم امر لھا فصلی علیھا و دفنت (الف) (سنن للبیھقی ، باب الصلوة علی من قتلہ الحدود ج رابع ص٢٥،نمبر٦٨٢٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حد میں قتل ہونے پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔
]٤٤٥[(٧)اگر باغیوں میں سے قتل کیا گیا ہو یا ڈاکؤوں سے قتل کیا گیا ہوتو اس پر نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
وجہ تا کہ لوگوں کو تنبیہ ہو کہ ایسا کرنے سے نماز جنازہ سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔حدیث میں ہے عن جابربن سمرة قال اتی النبی ۖ برجل قتل نفسہ بمشاقص فلم یصل علیہ (ب) (سنن للبیھقی ، باب الصلوة علی من قتل نفسہ غیر مستحل لقتلھا ج رابع ص ٢٩،نمبر٦٨٣٣) اس حدیث میں اپنے کو قتل کرنے والے پر حضورۖ نے نماز نہیں پڑھی تو اسی طرح ڈاکؤوں اور باغیوں پر نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
نوٹ چونکہ میت مومن ہے اس لئے اور لوگ نماز پڑھ لیں ۔
حاشیہ : (الف) غامدیہ کے سلسلے میں روایت ہے جو زنا کے سلسلے میں رجم کی گئی۔آپۖ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے ایسی توبہ کی کہ اگر چنگی وصول کرنے والا ایسی توبہ کرے تو اللہ اس کو معاف کردے۔پھر حکم دیا گیا اور اس پر نماز پڑھی گئی اور دفن کی گئی(ب) حضورۖ کے سامنے ایسا آدمی لایا گیا کہ اس نے اپنے آپ کو چھری سے قتل کیا تھا تو آپۖ نے اس پر نماز نہیں پڑھی۔