ابو یوسف و محمد رحمھما اللہ لا یغسلان]٤٤٢[ (٤) ولا یغسل عن الشہید دمہ ولا ینزع عنہ ثیابہ وینزع عنہ الفرو والحشو والخف والسلاح ]٤٤٣[(٥) ومن ارتث غسل
نزدیک جنبی شہید کو غسل دیا جائے گا۔صاحبین کے نزدیک غسل نہیں دیا جائے گا۔ان کی دلیل اوپر کی وہ تمام احادیث ہے جن میں ہے کہ شہیدوں کو غسل نہ دیا جائے۔بچے چونکہ گناہوں سے معصوم ہیں جس طرح شہید معصوم ہونگے،اس لئے شہید کو غسل نہیں دیا جائے گا۔اسی پر قیاس کرکے بچے کو بھی صاحبین کے نزدیک غسل نہیں جائے گا۔
]٤٤٢[(٤)شہید سے اس کا خون نہیں دھویا جائے گا،اور اس سے اس کے کپڑے نہیں نکالے جائیںگے،اور پوستین اور زائد کپڑے اور موزے اور ہتھیار نکال دیئے جائیںگے۔
تشریح شہید کے ساتھ جو کپڑے ہیں اس کو ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے گا۔البتہ جو چیزیں کفن کے لائق نہیں ہیں جیسے چمڑے کا پوستین،صدری اور کوٹ، چمڑے کے موزے اور ہتھیار ان کو الگ کر دیا جائے گا۔ اور اگر کفن میں کمی رہ جائے تو تین کپڑے کفن کے پورے کئے جائیںگے ۔
وجہ عن ابن عباس قال امر رسول اللہ ۖ بقتلی احد ان ینزع عنھم الحدید والجلودوان یدفنوا بدمائھم و ثیابھم (الف) (ابو داؤد شریف ، باب فی الشھید یغسل ج ثانی ص ٩١ نمبر ٣١٣٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زائد چیزیں نکال دی جائیںگی۔اور شہید کے کپڑوں کے ساتھ دفن کیا جائے گا۔
لغت الفرو : چمڑے کا لباس، الحشو : ایسا لباس جس میں روئی بھری ہو،کوٹ وغیرہ، السلاح : ہتھیار
]٤٤٣[(٥) جس نے فائدہ اٹھایا اس کو غسل دیا جائے گا اور ارتثاث کی شکلیں یہ ہیں زخم لگنے کے بعد کھائے،پیئے یا دوا کرائے یا زندہ باقی رہے یہاں تک کہ اس پر ایک نماز کا وقت گزر جائے اس حال میں کہ اس کو ہوش ہو یا میدان جنگ سے زندہ منتقل کیا جائے ۔
تشریح اصل قاعدہ یہ ہے کہ زخم لگنے کے بعد کچھ دیر تک ہوش کی حالت میں زندہ رہا ہو اور دنیا سے فائدہ اٹھایا تو وہ شہید کامل نہیں رہا اس لئے اس کو غسل دیا جائے گا چاہے اخروی اعتبار سے وہ شہید ہو۔ اب ہوش کے عالم میں تھا اور زخم لگنے کے بعد اس پر نماز کا ایک وقت گزر گیا تو گویا کہ وہ نماز اس کے ذمہ قرض ہو گئی اس لئے یہ بھی دنیا سے فائدہ اٹھانا ہوا اس لئے اس کو غسل دیا جائے گا۔ارتثاث والے کو غسل دیا جائے گا اس کی دلیل یہ اثر ہے عن عمر بن میمون فی قصة قتل عمر حین طعنہ قال فطار العلج بالسکین ذات طرفین لا یمر علی احد یمینا ولا شمالا الا طعنہ وفی ذلک دلالة علی انہ قتل بمحدد ثم غسل وکفن وصلی علیہ (الف) (سنن للبیھقی ،
حاشیہ : (الف) حضورۖ نے شہدائے احد کے بارے میں حکم دیا کہ ان سے ہتھیار اور چمڑے کے لباس کھول دیئے جائیں۔اور یہ کہ ان کے خون اور کپڑوں کے ساتھ دفن کئے جائیں(ب) عمر بن میمون سے حضرت عمر کے قتل کے سلسلے میں منقول ہے کہ جس وقت ان کو نیزہ مارا ،کہ موٹا کافر دو دھاری چھری لیکر اڑا دائیں بائیں جانب کسی پر بھی نہیں گزرا مگر اس کو نیزہ مارتا چلا گیا۔ اس میں دلالت ہے کہ حضرت عمر تیز دھار والی چیز سے قتل کئے گئے ہیں۔ پھر غسل دیئے گئے ہیں،کفن دیئے گئے ہیں اور ان پر نماز پڑھی گئی۔