]٤٣٧[(٣٦) ثم یھال التراب علیہ ویسنم القبر ولا یسطح ]٤٣٨[(٣٧) ومن استھل
وجہ حدیث میں ہے عن جابر قال نھی رسول اللہ ۖ ان یجصص القبر وان یقعد علیہ وان یبنی علیہ (الف) (مسلم شریف ، کتاب الجنائز ، فصل فی النہی عن تجصیص القبور ص ٣١٢ نمبر ٩٧٠ ابو داؤد شریف ، باب فی البناء علی القبر ج ثانی ص ١٠٤ نمبر ٣٢٢٥)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر پر پکی اینٹ اور تختہ نہ دیا جائے۔ عن ابراہیم قال کانوا یستحبون اللبن و یکرھون الآجر ویستحبون القصب ویکرھون الخشب (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ١٣٧، فی تجصیص القبر والآجر یجعل لہ ج ثالث ص ٢٧، نمبر ١١٧٦٩) اس اثر سے بھی مسئلہ کی تائید ہوتی ہے۔
لغت الآجر : پکی اینٹ، خشب : لکڑی، القصب : بانس۔
]٣٤٧[(٣٦)پھر قبر میں مٹی ڈال دی جائے اور قبر کوہان نما بنائی جائے۔
تشریح جس طرح اونٹ کی کوہان ہوتی ہے اسی انداز کی قبر کی شکل بنائی جائے۔لیکن قبر بہت اونچی نہ کی جائے۔البتہ چوکور بنا کر زمین کی سطح کے قریب نہ کی جائے کوہان نما اونچی رہے ۔
وجہعن سفیان التمار قال دخلت البیت الذی فیہ قبر النبی ۖ فرأیت قبر النبی ۖ وقبر ابی بکر و عمر مسنمة (ج) (بخاری شریف ، باب ماجاء فی قبر النبی ۖ وابوبکر و عمر ص ١٨٦ نمبر ١٣٩٠ مصنف ابن ابی شیبة ١٣٠ ، ماقالوا فی القبر یسنم ص ٢٣،نمبر١١٧٣٣) اس اثر سے معلوم ہوا کہ قبر کوہان نما بنائی جائے۔ قبر اونچی نہ ہو اس کی دلیل یہ حدیث ہے قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ ۖ ان لا تد ع تمثالا الا طمستہ ولا قبرامشرفا الاسویتہ (د) (مسلم شریف ، کتاب الجنائز، فصل فی طمس التمثال وتسویة القبر المشرف ص٣١٢ نمبر ٩٦٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بہت ابھری ہوئی قبر کو نیچی کی جائے۔
لغت یھال : مٹی ڈالی جائے، یسنم : کوہان نما بنائی جائے۔ یسطح : چوکور، زمین کی سطح سے ملی ہوئی۔
]٤٣٨[(٣٧)ولادت کے بعد جو رویا ہو تو اس کا نام رکھا جائے گااور غسل دیا جائے گا اور اس پر نماز پڑھی جائے گی۔اور اگر نہیں رویا تو ایک ٹکڑے میں لپیٹ دیا جائے گا اور دفن کر دیا جائے گا اور اس پر نماز نہیں پڑھی جائے گی۔
وجہ اصل قاعدہ یہ ہے کہ زندہ پیدا ہوا ہو اور بعد میں مرا ہوتو اس پر میت کے سارے احکام جاری ہوں گے۔اور اگر مردہ پیدا ہوا ہو تو وہ گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہے اس پر میت کے احکام جاری نہیں ہونگے رونا زندگی کی علامت ہے،اسی طرح کوئی اور علامت سے زندگی کا پتہ چل جائے تو اس پر میت کے احکام جاری ہونگے ورنہ نہیں ۔ اگر زندگی کا پتہ چلا تو اس بچے کا نام رکھا جائے گا۔اس کو غسل دیا جائے گا اور اس پر نماز
حاشیہ : (الف) حضورۖ نے منع کیا ہے کہ قبر پر چونا اور گچ ڈالا جائے اور اس پر بیٹھا جائے اور اس پر تعمیر کی جائے(ب)ابراہیم سے روایت ہے کہ وہ قبر پر کچی اینٹ ڈالنا مستحب سمجھتے تھے اور پکی اینٹ ڈالنا مکروہ سمجھتے تھے۔اور بانس ڈالنا مستحب سمجھتے تھے اور تختہ ڈالنا مکروہ سمجھتے تھے(ج) سفیان فرماتے ہیں کہ میں اس گھر میں داخل ہوا جس میں حضورکی قبر ہے تو حضورۖ، ابو بکر اور عمر کی قبروں کو دیکھا کہ وہ کوہان نما ہیں (د) مجھ سے حضرت علی نے فرمایا ،کیا تم کو نہ بھیجوں جس پر مجھ کو رسول اللہ نے بھیجا،یہ کہ کسی مورت کو نہ دیکھوں مگر اس کو مٹا دوں۔اور نہ اونچی قبر کو دیکھوں مگر اس کو زمین کے برابر کردوں۔