النبی علیہ السلام ثم یکبر تکبیرة ثالثة یدعو فیھا لنفسہ وللمیت وللمسلمین ثم یکبر تکبیرة رابعة ویسلم۔
جنازہ پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیردے۔
وجہ چار تکبیر کہنے کی دلیل یہ حدیث ہے عن ابی ھریرة ان رسول اللہ ۖ نعی النجاشی فی الیوم الذی مات فیہ وخرج بھم الی المصلی فصف بھم وکبر علیہ اربع تکبیرات (الف) (بخاری شریف ، باب التکبیر علی الجنازة اربعا ص ١٧٨ نمبر ١٣٣٣ ابو داؤد شریف ، باب الصلوة علی المسلم یموت فی بلاد المشرک ص ١٠١ نمبر ٣٢٠٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں چار تکبیر کہی جائے گی۔ہر تکبیر کے بعد کیا پڑھے گا اس کی تفصیل اس اثر میں ہے سأل ابا ھریرة کیف تصلی علی الجنازة فقال ابو ھریرة انا لعمر اللہ اخبرک اتبعھا من اھلھا فاذا وضعت کبرت وحمدت اللہ و صلیت علی نبیہ ثم اقول اللھم عبدک وابن عبدک الخ(ب)(مؤطا امام مالک ، باب ما یقول المصلی علی الجنازة ص ٢٠٩) اس اثر میں ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد ثنا، دوسری تکبیر کے بعد درود اور تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا پڑھے۔ اگر سورۂ فاتحہ ثنا کے طور پر پڑھے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ البتہ قرأت کے طور پر پڑھے تو حنفیہ کے نزدیک ٹھیک نہیں ہے۔
وجہ نماز جنازہ ایک قسم کی دعا ہے۔اس لئے اس میں قرأت نہیں ہوگی (٢)اثر میں اس کی ممانعت موجود ہے۔ان عبد اللہ بن عمر کان لا یقرأ فی الصلوة علی الجنازة (ج) (مؤطا امام مالک ، باب ما یقول المصلی علی الجنازة ص٢٠١ مصنف عبد الرزاق ،باب القراء ة والدعاء فی الصلوة علی المیت ص ٤٩١ نمبر ٦٤٣٣) اس اثر سے معلوم ہوا کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی جائے گی۔
فائدہ امام شافعی اور دیگر ائمہ کے نزدیک پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھے۔ان کی دلیل یہ اثر ہے ۔ عن طلحة بن عبد اللہ بن عوف قال صلیت خلف ابن عباس علی جنازة فقرأ بفاتحة الکتاب وقال لیتعلموا انھا السنة (د) (بخاری شریف ، باب قراء ة فاتحة الکتاب علی الجنازة ص ١٧٨ نمبر ١٣٣٥ ابو داؤد شریف ، باب ما یقرأ علی الجنازة ج ثانی ص ١٠٠ نمبر ٣١٩٨) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھے۔
حنفیہ کے نزدیک عموما بڑوں کے لئے یہ دعا پڑھتے ہیں ۔عن ابی ھریرة قال صلی رسول اللہ ۖ علی جنازة فقال اللھم اغفر لحینا ومیتنا الخ (ہ) (ابو داؤد شریف، باب الدعاء للمیت ج ثانی ص ١٠٠ نمبر ٣٢٠١ ترمذی شریف ، باب ما یقول فی الصلوة علی ا لمیت، ص
حاشیہ : (الف) حضورۖ نے نجاشی کی موت کی خبر اس دن دی جس دن وہ انتقال کر گئے اور لوگوں کو لیکر عیدگاہ کی طرف گئے پس لوگوں کے ساتھ صف بنائی اور ان پر چار تکبیریں کہی (ب) حضرت ابو ہریرہ سے پوچھا کہ جنازہ پر نماز کیسے پڑھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم میں تم کو خبر دوںگا اور اہل جنازہ کے پیچھے میں چلوںگا۔پس جب جنازہ رکھو توتکبیر کہتا ہوں،ثنا پڑھتا ہوں،نبی پر درود پڑھتا ہوں اور کہتا ہوں اللہم عبدک وابن عبدک الخ پوری دعا پڑھتا ہوں(ج) عبد اللہ بن عمر جنازہ کی نماز میں قرأت نہیں کیا کرتے تھے (د) میں نے حضرت ابن عباس کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے سورۂ فاتحہ پڑھی اور کہا کہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے (ہ) حضورۖ نے جنازہ پر نماز پڑھی۔پس کہا اللھم اغفر لحینا ومیتنا الخ۔