]٤٢٣[(٢٢) فان صلی علیہ غیر الولی والسلطان اعادالولی وان صلی علیہ الولی لم یجز ان یصلی احد بعدہ ]٤٢٤[(٢٣) فان دفن ولم یصل علیہ صلی علی قبرہ الی ثلثة
پھر بھائی نماز پڑھانے کا حقدار ہے۔
]٤٢٣[(٢٢)اگر میت پر ولی اور بادشاہ کے علاوہ نے نماز پڑھی تو ولی دوبارہ نماز لوٹا سکتا ہے۔اور اگر اس پر ولی نے نماز پڑھ لی تو کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ اس کے بعد کوئی اس پر نماز پڑھے ۔
تشریح امام اور ولی نماز پڑھانے کے حقدار تھے اس لئے اگر انہوں نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی اور دوسروں نے پڑھ لی تو اگر ولی دوبارہ نماز پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔اور اگر ولی نے پڑھ لی تو اب کسی کے لئے گنجائش نہیں ہے کہ وہ اب نماز پڑھے۔
وجہ (١) حضورۖ کی لوگ نماز پڑھتے رہے ۔اخٰر میں امیر المؤمنین حضرت ابو بکر نے نماز پڑھی ۔اب اس کے بعد کوئی بھی آدمی حضور کی نماز جناز نہیں پڑھ رہا ہے۔ حالانکہ آپ قبر میں زندہ ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ ولی اور امیر کے نماز جنازہ پڑھنے کے بعد کوئی نماز نہ پڑھے۔ امیر اور ولی نے نماز نہ پڑھی ہوں تو نماز پڑھ سکتے ہیں۔اس کی دلیل یہ حدیث ہے عن ابی ھریرة ان اسود رجلا او امرأة کان یقیم المسجد فمات ولم یعلم النبی ۖ بموتہ فذکرہ ذات یوم فقال ما فعل ذلک الانسان قالوا مات یا رسول اللہ قال افلا اذنتمونی فقالوا انہ کان کذا کذا قصتہ قال وفحقروا شانہ قال فدلونی علی قبرہ قال فاتی قبرہ فصلی علیہ (الف) (بخاری شریف ، باب الصلوة علی القبر بعد ما یدفن ص ١٧٨ نمبر ١٣٣٧ ابو داؤد شریف ، باب الصلوة علی القبر ج ثانی ص ١٠١ نمبر ٣٢٠٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور سب کے امیر تھے اور اس کالی عورت پر نماز نہیں پڑھی تھی تو آپ نے نماز کو دو بارہ پڑھی۔
]٤٢٤[(٢٣)پس اگر دفن کردیا اور اس پر نماز نہیں پڑھی تو اس کی قبر پر نماز پڑھی جائے گی تین دن تک اور نہیں پڑھی جائے گی اس کے بعد۔
تشریح جب تک میت پھول نہ گئی ہو اس وقت تک اس پر نماز جنازہ پڑھ سکتا ہے۔ اور عموما میت تین دن میں پھول پھٹ جاتی ہے۔ اس لئے تین دن کے بعد نماز جنازہ نہ پڑھے۔قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کی دلیل مسئلہ نمبر ٢٢ کی حدیث بخاری ہے کہ کالی عورت پر دفن کے بعد آپۖ نے نماز پڑھی۔تین دن کی دلیل یہ اثر ہے توفی عاصم بن عمر وابن عمر غائب فقدم بعد ذلک قال ایوب احسبہ قال بثلاث قال فقال ارونی قبر اخی فاروہ فصلی علیہ (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ١٦٢ ، فی المیت یصلی علیہ بعد دفن من فعلہ ج ثالث ص ٤٤، نمبر١١٩٣ سنن للبیھقی ، باب الصلوة علی القبر بعد ما یدفن ا لمیت ج رابع ص ٨١،نمبر٧٠٠٣٧٠٢٥)اس اثر میں تین دن کا اشارہ ہے۔ اسی سے ہمارا استدلال ہے۔
حاشیہ : (الف) ایک کالا مرد یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا ۔ان کا انتقال ہوا اور حضور کو اس کی موت کی خبر نہیں ہوئی تو ایک دن اس کا تذکرہ کیا تو آپۖ نے فرمایا کہ اس انسان کا کیا ہوا ؟ لوگوں نے کہا کہ انتقال ہو گیا یا رسول اللہ ! آپۖ نے فرمایا تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا ؟ لوگوں نے بتایا وہ ایسے ایسے تھے۔گویا کہ اس کی شان کو حقیر سمجھا تو آپ نے فرمایا اس کی قبر بتاؤ۔ راوی فرماتے ہیں کہ آپۖ اس کی قبر پر آئے اور اس پر نماز پڑھی(ب) عاصم بن عمر کا انتقال ہوا اور حضرت ابن عمر غائب تھے۔ اس کے بعد وہ آئے ۔ایوب فرماتے ہیں کہ تین دن کے بعد آئے ۔فرمایا میرے بھائی کی قبر بتاؤ تو ان کو قبر دکھلائی تو ابن عمر نے اس پر نماز پڑھی۔