السلطان ان حضر فان لم یحضر فیستحب تقدیم امام الحی ثم الولی۔
وجہ بادشاہ موجود ہو پھر بھی دوسرا آدمی نماز پڑھائے تو اس میں بادشاہ کی توہین ہے۔ اس لئے بادشاہ کو نماز پڑھانے کا زیادہ حق ہے۔وہ نہ ہو تو گاؤں کا امام، کیونکہ کہ زندگی میں اس کو اپنی نماز کا امام مانا ہے تو موت کے بعد بھی اپنی نماز کے لئے اسی پر راضی ہوگا۔اور وہ بھی نہ ہوتو اس کا ولی نماز جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار ہے۔ اور ولی میں بھی وراثت میں ولی عصبہ کی ترتیب ہوگی۔البتہ ولی اگر کسی اور کو نماز پڑھانے کی اجازت دے تو دے سکتا ہے(٢) عن عمران بن حصین قال قال لنا رسول اللہ ۖ ان اخاکم النجاشی قد مات فقوموا فصلوا علیہ فقمنا فصففنا کما یصف علی المیت و صلینا علیہ کما یصلی علی المیت (الف)(ترمذی شریف ، باب ماجاء فی صلوة النبی ۖ علی النجاشی ص ٢٠١ نمبر ١٠٣٩ بخاری شریف ، باب الصلوة علی الجنائز بالمصلی و المسجد ص ١٧٧ نمبر ١٣٢٧)اس حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ حضورۖ سب کے امیر تھے اس لئے آپ نے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھی۔اس لئے آپ سب سے زیادہ حقدار تھے۔اور دوسری بات یہ کہ نماز جنازہ فرض کفایہ ہے۔ کیونکہ اس میں امر کا صیغہ فقوموا فصلوا علیہ کا لفظ ہے(٢) والی اور امیر نماز جنازہ کا زیادہ حقدار ہے اس کی دلیل یہ اثر ہے سمعت ابا حازم یقول انی لشاھد یوم مات الحسن بن علی فرأیت الحسین ابن علی یقول لسعید بن العاص ویطعن فی عنقہ تقدم فلولا انھا سنة ما قدمت وکان بینھم شیء (ب) ( سنن للبیہقی ، باب من قال الوالی احق بالصلوة علی المیت من الولی ج رابع ص ٤٦،نمبر٦٨٩٤) اس اثر میں حضرت حسین حضرت حسن کے ولی تھے۔لیکن سعید بن عاص کو نماز جنازہ کے لئے آگے بڑھایا۔کیونکہ وہ اس وقت والی اور امیر تھے۔ اور حضرت حسین نے فرمایا یہ سنت ہے اس لئے والی اور امیر نماز پڑھانے کا ولی سے زیادہ حقدار ہیں۔ اور گاؤں کا امام اس کے بعد حقدار ہے۔اس کی دلیل یہ اثر ہے عن علی قال الامام احق من صلی جنازة،ذھبت مع ابراھیم الی جنازة وھو ولیھافارسل الی امام الحی فصلی علیھا (ج) (مصنف ابن ابی شیبة ٧٣ ،ماقالوا فی تقدم الامام علی الجنازة ج ثانی ص ٤٨٣،نمبر١١٣٠٦١١٣٠٥) اس اثر سے معلوم ہوا کہ مسجد کا امام نماز کا حقدار ہے۔اس کے بعد ولی نماز جنازہ کا زیادہ حقدار ہے اس کی دلیل یہ اثر ہے عن عمر انہ قال الولی احق بالصلوة علیھا (نمبر ٦٣٧٣) وفی اثر آخر عن الحسن قال اولی الناس بالصلوة علی المرأة الاب ثم الزوج ثم الابن ثم الاخ (د) (مصنف عبد الرزاق ، باب من احق بالصلوة علی المیت ص ٤٧٢ نمبر ٦٣٧٠)اس اثر سے معلوم ہوا کہ امام گاؤں کے بعد ولی زیادہ حقدار ہے اور ولی میں ترتیب یہ ہے کہ باپ پھر شوہر پھربیٹا
حاشیہ : (الف) آپۖ نے ہم سے فرمایا تمہارے نجاشی بھائی کا انتقال ہو گیا ہے تو کھڑے ہو اور اس پر نماز پڑھو۔تو ہم کھڑے ہوئے اور صف بنائی جیسے میت پر صف بناتے ہیں۔ اور ہم نے اس پر نماز پڑھی جیسے میت پر نماز پڑھتے ہیں(ب) میں نے ابو حازم سے کہتے ہوئے سنا کہ میں حاضر تھا جس دن حسن بن علی کا انتقال ہوا ۔میں نے حسین بن علی کو دیکھا کہ وہ سعد بن عاص کو کہہ رہے ہیں اور ان کی گردن میں کچوکے بھی لگا رہے ہیں کہ نماز کے لئے آگے بڑھو۔اگر یہ سنت نہ ہوتی تو میں آپ کو جنازہ نماز کے لئے آگے نہ بڑھاتا۔اور حسین اور حضرت سعید میں کچھ اختلاف تھا (ج) حضرت علی نے فرمایا کہ امام جنازہ پر نماز پڑھانے کا زیادہ حقدار ہے۔ میں ابراہیم کے ساتھ جنازہ کے پاس گیا اور وہ اس جنازہ کے ولی تھے تو انہوں نے گاؤں کے امام کے پاس خبر بھیجی اور انہوں نے اس پر نماز پڑھا ئی(د)حضرت عمر نے فرمایا ولی جنازہ پر نماز پڑھانے کا زیادہ حقدار ہے ۔دوسرے اثر میں ہے کہ حسن نے فرمایا عورت پر نماز پڑھانے کا زیادہ حقدار باپ ہے،پھر شوہر پھر بیٹا پھر بھائی۔