]٤٠٨[(٧) ویجمر سریرہ وترا]٤٠٩[ (٨) ویغلی الماء بالسدر او بالحرض فان لم یکن فالماء القراح ]٤١٠[(٩) ویغسل رأسہ ولحیتہ بالخطمی۔
اکثر من ذلک ان رأیتن ذلک بماء وسدر واجعلن فی الآخرة کافورا او شیئا من کافور (نمبر ١٢٥٣) و فی حدیث اخری قال ابدأن بمیامنھا و مواضع الوضوء منھا (الف) (بخاری شریف ، باب غسل ا لمیت و وضوء ہ بالماء والسدر ص ١٦٧ نمبر ١٢٥٤)اس حدیث سے یہ باتیں معلوم ہوئیں ۔غسل طاق مرتبہ دے، غسل میں بیری کے پتے استعمال کرے، اخیر میں میت پر کافور ڈالے تاکہ خوشبو مہکتی رہے اور جلدی کیڑے نہ لگے،غسل دائیں جانب سے شروع کرے۔اسی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میت پر پورا پانی بہائے جس سے ہر جگہ پانی پہنچ جائے۔
]٤٠٨[(٧) تخت کو دھونی دے طاق مرتبہ ۔
وجہ تخت کو دھونی دینے سے تخت پر خوشبو ہوگی تاکہ میت کی بدبو محسوس نہ ہو۔ اسی طرح کپڑے پر بھی طاق مرتبہ دھونی دے تاکہ خوشبو رہے(٢) اثر میں موجود ہے عن اسماء بنت ابی بکر انھا قالت لاھلھا اجمرو ثیابی اذا انا مت ثم کفنونی ثم حنطو نی ولا تذروا علی کفنی حناطا (ب) (مصنف عبد الرزاق ، باب ا لمیت لا یتبع بالمجمرة ج ثالث ص ٤١٧ نمبر ٦١٥٢ مصنف ابن ابی شیبة،نمبر ١١٠٢٠)اس اثر سے معلوم ہوا کہ میت کے کپڑے کو لبان کی دھونی دینی چاہئے ۔اور اس کے تخت کو بھی دھونی دینی چاہئے۔البتہ دھونی لیکر میت کے پیچھے نہیں جانا چاہئے۔کیونکہ اس میں آگ کا اثر ہے اور لوگ اس کو بت پرستی کے مشابہ سمجھیںگے۔
]٤٠٩[(٨)پانی کو جوش دیا جائے بیری کے پتے یا اشنان گھاس سے،پس اگر یہ نہ ہوں تو خالص پانی سے۔
وجہ بیری کے پتے یا اشنان گھاس سے صفائی زیادہ ہوتی ہے۔اس لئے ان دونوں میں سے ایک کو ڈال کر پانی کو جوش دیا جائے اور اس پانی سے میت کو غسل دیا جائے۔ اور اگر وہ نہ ملیں تو خالص پانی سے میت کو غسل دیا جائے (٢) اس کے لئے بخاری شریف کی حدیث( نمبر ١٢٥٣ مسلم شریف ،باب فی غسل ا لمیت ص ٣٠٤ نمبر ٩٣٩)مسئلہ نمبر ٦ میں بماء وسدر گزر چکی ہے۔جس کا مطلب یہ تھا کہ بیری کے پتے ڈال کر جوش دیا جائے۔
]٤١٠[(٩)میت کا سر اور اس کی ڈاڑھی خطمی سے دھوئی جائے۔
وجہ اثر میں ہے عن الاسود قال قلت لعائشة یغسل رأس المیت بخطمی فقالت لا تعنتوا میتکم (ج) (مصنف ابن ابی شیبة ١٤ ، فی المیت اذا لم یوجد لہ سدر یغسل بغیرہ خطمی او اشنان، ج ثانی ص١٤٥، نمبر١٠٩١٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ میت کے سر کو خطمی سے دھونا
حاشیہ : (الف) ام عطیہ فرماتی ہیں کہ جس وقت حضورۖ کی بیٹی کا انتقال ہوا تو آپۖ نے فرمایا ان کو تین مرتبہ غسل دو یا پانچ مرتبہ غسل دو یا اس سے زیادہ اگر تم مناسب سمجھوپانی سے اور بیری کے پتے سے۔اور اخیر میں کافور ڈالو یا کافور میں سے کچھ ڈالو۔دوسری حدیث میں ہے کہ میت کی دائیں جانب سے شروع کرو اور اس کی وضو کی جگہ سے شروع کرو(ب) اسماء بنت ابی بکر نے اپنے گھروالوں سے کہا جب میں مر جاؤں تو میرے کپڑے کو دھونی دینا پھر مجھ کو کفن دینا پھر مجھ کو حنوط دینا اور میرے کفن پر حنوط نہ چھڑکنا(ج) میں نے عائشہ سے پوچھا کیا میت کا سر خطمی سے دھویا جائے ؟ تو فرمایا میت پر سختی نہ کرنا (جس کا مطلب یہ ہے کہ خطمی اس پرعمل کر سکتے ہو)