خمس ترویحات فی کل ترویحة تسلیمتان۔]٣٩٧[ (٢) ویجلس بین کل ترویحتین
١٦٥، نمبر ٧٦٨١ مصنف عبد الرزاق، باب قیام رمضان ج رابع ص ٢٦٠ نمبر ٧٧٣٠) اس حدیث اور عمل صحابہ سے معلوم ہوا کہ تراویح کی نماز بیس رکعتیں ہیں۔
نوٹ حضرت عائشہ کی حدیث میں ہے کہ رمضان اور غیر رمضان میں آپ نے گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھی اور اس حدیث کو امام بخاری وغیرہ نے باب قیام رمضان میں لایا ہے۔یہ حدیث تراویح کی بیس رکعتوں کے خلاف نہیں ہے۔ اس لئے کہ قیام اللیل سے مراد اس حدیث میں تہجد کی نماز ہے۔کیونکہ (١) اس حدیث کو مسلم شریف میں اور بخاری شریف میں تہجد اور وتر کے باب میں بھی نقل کیا ہے (٢) اس حدیث میں تذکرہ ہے کہ آپ چار رکعتیں ایک ساتھ پڑھا کرتے تھے جن کے حسن کا کیا کہنا۔اور تراویح کی نماز ایک ساتھ چار رکعت نہیں ہوتی۔ بلکہ دو دو رکعت کرکے ہوتی ہے۔اس لئے وہ حدیث تراویح کے بارے میں نہیں ہے بلکہ تہجد کے بارے میں ہے۔ حضرت عائشہ کی حدیث کا ٹکڑا اس طرح ہے یصلی اربعا فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ثم یصلی اربعا فلا تسأل عن حسنھن و طولھن ثم یصلی ثلثا (الف) (بخاری شریف ، باب فضل من قام رمضان ص ٢٦٩ نمبر ٢٠١٣ مسلم شریف ،نمبر ٧٣٨)اس حدیث میں ذکر ہے کہ آپۖ چار رکعت ایک ساتھ پڑھتے تھے اور پھر چار رکعت ایک ساتھ پڑھتے تھے۔اور چار رکعت ایک ساتھ تراویح کی نہیں پڑھتے اس لئے یہ تہجد کے بارے میں ہے (٣) سنن للبیھقی نے دونوں روایتوں کو اس طرح جمع کیا ہے کہ پہلے گیارہ رکعت تہجد پڑھتے ہوںگے۔پھر بیس رکعت تراویح پڑھتے ہوںگے۔ان کا جملہ اس طرح ہے ویمکن الجمع بین الروایتین فانھم کانوا یقومون باحدی عشرة ثم کانوایقومون بعشرین ویوترون بثلاث (ب) (سنن للبیھقی ، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ج ثانی ص ٦٩٩،نمبر٤٦١٨)
]٣٩٧[(٢)ہر دو ترویحہ کے درمیان بیٹھے گا ترویحہ کی مقدار پھر لوگوں کو وتر پڑھائے گا۔اور وتر رمضان کے علاوہ میں جماعت کے ساتھ نہیں پڑھی جائے گی۔
وجہ دو ترویحہ کے درمیان بیٹھنے کے لئے اثر یہ ہے کان عمر بن خطاب یروحنا فی رمضان یعنی بین الترویحتین قدر ما یذھب الرجل من المسجد الی سلع (ج) (سنن للبیھقی ، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ص ٧٠٠،نمبر٤٦٢٢) اس عمل سے معلوم ہوا کہ دو ترویحہ کے درمیان تھوڑا آرام بھی کرنا چاہئے تاکہ لوگ پریشان نہ ہو جائیں۔اور رمضان میںنماز وتر جماعت کے ساتھ پڑھا ئی جائے گی۔اس کے لئے اثر یہ ہے مسئلہ نمبر ایک میں بیھقی کی حدیث گزر چکی ہے کہ وتر بھی تراویح کے ساتھ پڑھا کرتے تھے (٢) یہ اثر ہے عن علی قال دعا القراء فی رمضان فامرھم منھم رجلا یصلی بالناس عشرین رکعة قال و کان علی
حاشیہ : (الف)آپۖ چار رکعت نماز پڑھتے تو اس کے حسن اور لمبائی کو مت پوچھو،پھر چار رکعت پڑھتے تو مت پوچھو اس کے حسن اور لمبائی کو ،پھر تین رکعت پڑھتے (ب) ممکن ہے دونوں روایتوں کے درمیان اس طرح جمع کرنا کہ وہ لوگ گیارہ رکعت پڑھتے پھر کھڑے ہوتے اور بیس رکعت پڑھتے اور تین رکعت وتر پڑھتے(ج) عمر بن خطاب ہم کو رمضان میں آرام دیتے یعنی دو ترویحہ کے درمیان اتنی مقدار کہ آدمی مسجد سے مقام سلع جا سکے۔