خطبة۔
تشریح حضورۖ نے نماز کسوف کے بعد خطبہ دیا ہے لیکن وہ ایک رسم کو دور کرنے کے لئے تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کسی کے مرنے یا زندہ ہونے پر سورج گرہن ہوتا ہے اور اس دن آپ کا صاحبزادہ حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا۔اس لئے آپۖ نے اس کی نفی کے لئے خطبہ دیا لیکن نماز عید اور نماز جمعہ کی طرح با ضابطہ خطبہ دینا ضروری نہیں ہے۔ خطبہ کے بغیر بھی نماز ہو جائے گی۔ ایسے آیة من آیات اللہ کے وقت نماز پڑھنا دعا کرنا اور اپنے گناہوں کا استغفار کرنا اصل ہے۔ اس کی طرف خود راوی اشارہ فرما رہے ہیں عن ابی بکرة ... فقال (ۖ) ان الشمس والقمر آیتان من آیات اللہ وانھما لا یخسفان لموت احد واذا کان ذلک فصلوا وادعوا حتی ینکشف ما بکم وذلک ان ابنا للنبی ۖمات یقال لہ ابراھیم فقال الناس فی ذلک (الف)(بخاری شریف ، باب الصلوة فی کسوف القمر ص ١٤٥ نمبر ١٠٦٣) اس حدیث میں نماز کے بعد فقال : سے اخیر تک خطبہ دیا ہے۔لیکن راوی خود فرماتے ہیں کہ یہ خطبہ اس بنا پر تھا کہ آپۖ کے صاحبزادے ابراہیم کا اس دن انتقال ہوا تھا۔اس لئے لوگوں کے اعتقادات کو ختم کرنے کے لئے خطبہ دیا تھا۔ ورنہ اصل تو فصلوا وادعوا ہے ۔اور دوسری حدیث میں ہے۔ فاذا رأیتم شیئا من ذلک فافزعوا الی ذکر اللہ ودعائہ واستغفارہ (ب)(بخاری شریف ، باب الذکر فی الکسوف ص ١٤٥ نمبر ١٠٥٩ )کہ ان آیات کے وقت گھبرا کر اللہ کے ذکر اور استغفار کی طرف جاؤ۔کبھی لوگوں کو یہ سب مسائل سمجھانے کی ضرورت پڑے تو سمجھا دیں۔با ضابطہ خطبہ ضروری نہیں کہ اس کے بغیر نماز کسوف نہیں ہوگی۔
حاشیہ : (الف)آپۖ نے فرمایا سورج اور چاند اللہ کی آیتوں میں سے نشانیاں ہیں۔وہ کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے۔پس جب یہ ہو تو نماز پڑھو اور دعا کرتے رہو۔یہاں تکہ یہ کھل جائیں۔اور یہ اس بنا پر کہا کہ حضورۖ کے صاحبزادے جنکو ابراہیم کہتے تھے کا انتقال ہوا تھا۔تو لوگ اس کے بارے میں بہت سی بات کہتے تھے(ب) پس ان نشانیوں میں کوئی چیز دیکھو تو گھبرا کر دوڑو اللہ کے ذکر،دعا اور استغفار کی طرف۔