]٣٧٥[ (١٠) ثم یخطب بعد الصلوة خطبتین یعلم الناس فیھما صدقة الفطر واحکامھا ]٣٧٦[(١١) ومن فاتتہ صلوة العید مع الامام لم یقضھا ]٣٧٧[(١٢) فان غم الھلال عن الناس وشھدو ا عند الامام برؤیة الھلال بعد الزوال صلی العید من الغد]٣٧٨[ (١٣)
]٣٧٥[(١٠)پھر نماز کے بعد خطبہ دیںگے دو خطبے ،ان میں لوگوں کو صدقۂ فطر اور اس کے احکام سکھلائیںگے۔
تشریح جس طرح جمعہ میںدو خطبے دیئے جاتے ہیں اسی طرح عیدین میں بھی دو خطبے دیئے جائیںگے۔ اور عید الاضحی کا موقع ہوگا تو قربانی کے مسائل سکھلائے جائیںگے۔نماز کے بعد خطبہ دینے کی دلیل یہ حدیث ہے عن ابن عمر قال کان النبی ۖ وابو بکر و عمر یصلون الیعدین قبل الخطبة (الف) (بخاری شریف ، باب الخطبة بعد العید ص ١٣١ نمبر ٩٦٣) اس سے معلوم ہوا کہ خطبہ نماز کے بعد دیا جائے گا،بخاری شریف، حدیث نمبر ٩٧٥ میں نماز کے بعد خطبہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔عبارت یہ ہے۔سمعت ابن عباس قال خرجت مع النبی ۖ یوم فطر او اضحی فصلی العید ثم خطب ثم اتی النساء فوعظھن (بخاری شریف،باب خروج الصبیان الی المصلی ،ص ١٣٢، نمبر ٩٧٥) اس حدیث میں خطبے کا تذکرہ ہے ،اور یہ بھی ہے کہ نماز کے بعد خطبہ دیا۔
]٣٧٦[(١١) جس کی عید کی نماز فوت ہو جائے امام کے ساتھ اس کو قضا نہیں کرے گا۔
وجہ (١) نماز عید اجتماعیت کے ساتھ مشروع ہے اور جس کی نماز عید امام کے ساتھ چھوٹ گئی تو اب اجتماعیت نہیں ہوگی اس لئے اب نماز عید کو قضا نہیں کرے گا۔البتہ دو رکعت نفل کے طور پر پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ دلیل یہ قول ہے قال عطاء اذا فاتہ العید صلی رکعتین (ب) (بخاری شریف ، باب اذا فاتہ العید صلی رکعتین ص ١٣٤ نمبر ٩٨٧) (٢) قال عبد اللہ من فاتہ العید فلیصل اربعا (ج) (مصنف ابن ابی شیبة، ٤٢٩ الرجل تفوتہ الصلوة فی العید کم یصلی ج ثانی ص ٤،نمبر٨٧٩٩ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جس کی نماز عید فوت ہو جائے وہ نفلی طور پر چار رکعت پڑھے۔
]٣٧٧[(١٢)پس اگر لوگوں کو چاند نظر نہ آئے اور امام کے پاس چاند دیکھنے کی گواہی زوال کے بعد دی تو عید کی نماز اگلی صبح کو پڑھے گا۔
وجہ حدیث میں ہے عن ابی عمیر بن انس عن عمومة لہ من اصحاب النبی ۖ ان رکبا جاء وا الی النبی ۖ یشھدون انھم روا الھلال بالامس فامرھم ان یفطروا واذا اصبحوا ان یغدوا الی مصلا ھم (د) (ابو داؤد شریف ، باب اذا لم یخرج الامام للعید من یومہ یخرج من الغد ص ١٧١ نمبر ١١٥٧ سنن للبیھقی ، باب الشھود یشھدون علی رؤیة الھلال آخر النھار ج ثالث ص٤٤٢،نمبر٦٢٨٣)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زوال کے بعد چاند دیکھنے کی گواہی آئے تو اگلے دن نماز عید پڑھی جائے گی۔
]٣٧٨[(١٣)پس اگر کوئی عذر پیش آجا ئے کہ لوگوں کو دوسرے دن بھی نماز سے روک دے تو اس کے بعد نماز عید نہیں پڑھی جائے گی۔
حاشیہ : (الف)حضورۖ ، ابوبکر اور عمر عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھتے(ب) حضرت عطا نے فرمایا اگر عید فوت ہو جائے تو دو رکعت نماز پڑھے (ج) حضرت عبد اللہ نے فرمایا جس کی عید فوت ہو جائے تو وہ چار رکعت نماز پڑھے(د) ابو عمیر بن انس فرماتے ہیں کہ کچھ سوار حضورۖ کے پاس آئے ۔انہوں نے کل چاند دیکھنے کی گواہی دی تو آپۖ نے ان کو حکم دیا کہ افطار کرے اور جب صبح کرے تو عید گاہ کی طرف آئے۔