]٣٧١[(٦) ویصلی الامام بالناس رکعتین ]٣٧٢[(٧) یکبر فی الاولی تکبیرة الاحرام
حدیث سے معلوم ہوا کہ تسبیح یعنی نماز اشراق کے وقت آپۖ ۖ نماز عید سے فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ اس لئے یہی وقت نماز عید کا ہوگا (٢)پہلے ضروری نوٹ میں ایک حدیث بخاری کی گزری جس میں یہ لفظ تھا عن البراء بن عازب قال قال سمعت النبی ۖیخطب فقال ان اول ما نبدأبہ فی یومنا ھذا ان نصلی ثم نرجع فننحر (الف) (بخاری شریف ، باب سنة العیدین لاہل الاسلام ص ١٢١ نمبر ٩٥١) جس سے معلوم ہوا کہ اس دن سورج نکلنے کے بعد پہلی چیز نماز عید پڑھنا ہے۔ اس لئے سورج بلند ہونے کے بعد عید کی نماز کا وقت ہوگا۔اور زوال کے بعد وقت ختم ہو جائے گا۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے عن عمومة لہ من اصحاب النبی ۖ ان رکبا جاء وا الی النبی ۖ یشھدون انھم روا الھلال بالامس فامرھم ای یفطروا واذا اصبحوا ان یغدوا الی مصلاھم (ب) (ابوداؤد شریف ،باب اذا لم یخرج الامام للعید من یومہ یخرج من الغد ص ١٧١ نمبر ١١٥٧) اس حدیث میں زوال کے بعد چاند دیکھنے کی گواہی دی ہے تو اس دن نماز نہیں پڑھی بلکہ اگلے دن صبح کو نماز عید پڑھنے کے لئے کہا جو اس بات کی دلیل ہے کہ زوال کے بعد عید کا وقت نہیں رہتا۔
]٣٧١[(٦)امام لوگوں کو نماز پڑھائے گا دو رکعت۔
وجہ حدیث میں ہے عن ابن عباس ان النبی ۖ خرج یوم الفطر فصلی رکعتین لم یصل قبلھا ولا بعدھا (ج) (بخاری شریف ، باب الصلوة قبل العید و بعدھا ص ١٣٥ نمبر ٩٨٩ ) اس حدیث میں ہے کہ آپۖ نے عید کی نماز صرف دو رکعت پڑھائی ۔اس لئے عید کی نماز صرف دو رکعت ہوگی۔
]٣٧٢[(٧)تکبیر کہے گا پہلی رکعت میں تکبیر احرام اور اس کے بعد تین تکبیریں پھر سورۂ فاتحہ اور اس کے ساتھ سورة ملائے پھر تکبیر کہے اور رکوع میں جائے۔
تشریح تکبیر احرام کے بعد عیدین میں تین تکبیر زوائد ہیں۔ اس کے بعد سورۂ فاتحہ پڑھے اور اس کے ساتھ سورة ملائے گا پھر تکبیر کہتے ہوئے رکوع میں جائے گا ۔
وجہ تین تکبیر زوائد کی دلیل یہ حدیث ہے سأل ابو موسی الاشعری و حذیفة بن الیمان کیف کان رسول اللہ یکبر فی الاضحی والفطر؟ فقال ابو موسی کان یکبر اربعا تکبیرة علی الجنائز فقال حذیفة صدق (د) (ابو داؤد شریف ، باب التکبیر فی العیدین ص ١٧٠ نمبر ١١٥٣ سنن للبیھقی ، باب ذکر الخبر الذی روی فی التکبیر اربعا ج ثالث ص ٢٨٩ مصنف عبد الرزاق ، باب التکبیر
حاشیہ : (الف)آپۖ نے فرمایا سب سے پہلی چیز جو شروع کریںگے اس دن وہ یہ کہ نماز پڑھیںگے،پھر واپس ہونگے اور قربانی کریںگے (ب) راوی کے چچا نے خبر دی کہ کچھ سوار حضورۖ کے پاس آئے اور گواہی دی کہ انہوں نے کل گذشتہ رات چاند دیکھا ہے تو آپۖ نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ افطار کریں اور جب صبح ہو تو عید گاہ آئیں(ج) ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضورۖ عید الفطر کے دن نکلے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ اس کے پہلے بھی نماز نہیں پڑھی اور بعد میں بھی نہیں پڑھی(د) حضرت موسی اشعری نے فرمایا کہ حضور تکبیر کہا کرتے تھے عید الفطر اور عید الاضحی میں چار جیسے جنازہ پر تکبیر کہتے ہیں۔ حضرت حذیفہ نے فرمایا سچ کہا۔