محمد]٣٦٩[ (٤) ولا یتنفل فی المصلی قبل صلوة العید ویتنفل بعدھا]٣٧٠[ (٥) فاذا
حلت الصلوة بارتفاع الشمس دخل وقتھا الی الزوال فاذا زالت الشمس خرج وقتھا
یکبرون؟ قال یکبر الامام؟ قلت لا قال امجانین الناس (مصنف ابن ابی شیبة ٤١٣ فی التکبیر اذا خرج الی العید ج ثانی ص٤٨٨،نمبر٥٦٢٩ ) اس اثر میں حضرت ابن عباس نے زور سے تکبیر کہنے سے انکار کیا ہے۔البتہ عید الاضحی میں زور سے تکبیر بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔اس لئے وہاں زور سے تکبیر پڑھے گا ۔
فائدہ صاحبین کے نزدیک دونوں میں تکبیر زور سے پڑھے گا۔ان کی دلیل یہ حدیث ہے ان عبد اللہ بن عمر اخبرہ ان رسول اللہ ۖ کان یکبر یوم الفطر من حین یخرج من بیتہ حتی یأتی المصلی (الف) (دار قطنی ، کتاب العیدین ج ثانی ص ٣٤ نمبر ١٦٩٨مستدرک للحاکم ،کتاب صلوة العیدین،ج اول،ص٤٣٨، نمبر ١١٠٥) (٢) عن ابن عمر انہ کان یخرج لعیدین من المسجد فیکبر حتی یأتی المصلی ویکبر حتی یأتی الامام (ب) (دار قطنی ، کتاب العیدین ج ثانی ص ٣٣ نمبر ١٦٩٦ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ عید الفطر اور عید الاضحی دونوں کے راستے میں تکبیر زور سے کہی جائے گی۔
]٣٦٩[(٤)عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نفل نہیں پڑھی جائے گی۔اور نفل پڑھی جائے گی نماز عید کے بعد۔
وجہ نفل میں مشغول ہوگا تو عید کی نماز پڑھنے میں دیر ہوگی۔حالانکہ اس کو سب سے پہلے کرنا ہے (٢) حدیث میں ہے عن ابن عباس ان النبی ۖ خرج یوم الفطر فصلی رکعتین لم یصل قبلھا ولا بعدھا ومعہ بلال (ج) (بخاری شریف ، باب الصلوة قبل العید و بعدھا ص ١٣٥ نمبر ٩٨٩ ابو داؤد شریف ، باب الصلوة بعد صلوة العید ص ١٧١ نمبر ١١٥٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید کے پہلے اور بعد میں بھی نماز نفل نہیں پڑھنا چاہئے ۔ لیکن دوسرے اثر میں ہے عن ابن عباس کرہ الصلوة قبل العید (د) (بخاری شریف ، باب الصلوة قبل العید و بعدھا ص ١٣٥ نمبر ٩٨٩ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ عید سے پہلے تو نفل مکروہ ہے بعد میں نہیں۔
]٣٧٠[(٥) پس جب نماز حلال ہو جائے سورج کے بلند ہونے سے تو نماز عید کا وقت داخل ہو جائے گا زوال تک ، پس جب سورج زائل ہو گیا تو اس کا وقت نکل گیا ۔
تشریح نماز عید کا وقت سورج تھوڑا اوپر اٹھنے کے بعد سے زوال تک ہے۔
وجہ قال خرج عبد اللہ بن بسر صاحب رسول اللہ ۖ مع الناس فی یوم عید الفطر او اضحی فانکر ابطاء الامام فقال انا کنا قد فرغنا ساعتنا ھذہ وذلک حین التسبیح (ہ) (ابو داؤد شریف، باب وقت الخروج الی العید ص ١٦٨ نمبر ١١٣٥) اس
حاشیہ : (الف) آپۖ تکبیر کہتے عید الفطر کے دن جس وقت گھر سے نکلتے یہاں تک کہ عید گاہ آتے (ب) عبد اللہ بن عمر عیدین کے لئے مسجد سے نکلتے تو تکبیر کہتے یہاں تک کہ عید گاہ آتے اور تکبیر کہتے رہتے امام کے آنے تک(ج)آپۖ عید الفطر کے دن نکلے پس دو رکعت نماز پڑھی ،اس سے پہلے بھی نہیں پڑھی اور اس کے بعد بھی نہیں پڑھی، اور آپۖ کے ساتھ حضرت بلال تھے (د) ابن عباس عید سے پہلے نماز ناپسند فرماتے تھے(ہ) عبد اللہ بن بسر نے لوگوں کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کی نماز پڑھی تو امام کے دیر کرنے کا انکار کیا پھر فرمایا ہم اس گھڑی فارغ ہو جایا کرتے تھے اور یہ نماز اشراق کا وقت تھا۔