یبدأ بالخطبة۔ ]٣٦٣[(١٨) واذا اذن المؤذنون یوم الجمعة الاذان الاول ترک الناس البیع والشراء و توجھوا الی الجمعة]٣٦٤[ (١٩) فاذا صعد الامام المنبر جلس واذن المؤذنون بین یدی المنبر ثم یخطب الامام۔
نہیں بنا لینی چاہئے۔
]٣٦٣[(١٨)جب مؤذن جمعہ کے دن پہلی اذان دے تو لوگ خریدو فروخت چھوڑ دے اور جمعہ کی طرف متوجہ ہو جائے۔
وجہ خود آیت میں ہے اذا نودی للصلوة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللہ وذروا البیع (الف) ّ(آیت ١٩ سورة الحج ٦٢)اس آیت سے معلوم ہوا کہ اذان دی جائے تو خریدو فروخت چھوڑ کر جمعہ کی طرف چل پڑنا چاہئے ۔ البتہ حضورکے زمانے میں دوسری اذان ہوتی تھی اور حضرت عثمان نے دیکھا کہ لوگوں کی بھیڑ زیادہ ہے تو ایک اذان کا اضافہ کر دیا جس کو پہلی اذان کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس حدیث سے ہے عن السائب بن یزید قال کان النداء یوم الجمعة اولہ اذا جلس الامام علی المنبر علی عھد النبی ۖ وابی بکر و عمر فلما کان عثمان و کثر الناس زاد النداء الثالث علی الزوراء قال ابو عبداللہ الزوراء موضع بالسرق بالمدینة (ب)(بخاری شریف ، باب الاذان یوم الجمعة ص ١٢٤ نمبر ٩١٢ ابو داؤد شریف ، باب النداء یوم الجمعة ص ١٦٢ نمبر ١٠٨٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلی اذان حضرت عثمان نے اضافہ کیا ہے۔اور اس وقت بھی جمعہ کے لئے اذان دی جاتی ہے اس لئے اب اسی وقت جمعہ کے لئے سعی کرنا ہوگا۔ اس کی تائید میں یہ اثر ہے قال لی مسلم بن یسار اذا علمت ان النھار قد انتصفت یوم الجمعة فلا تبتاعوا شیئا (ج) (مصنف بن ابی شیبة ،٣٧٢ الساعة التی یکرہ فیھا الشراء والبیع ج ثانی ص ٤٦٥،نمبر٥٣٨٣ (٢) قلت للزھری متی یحرم البیع والشراء یوم الجمعة فقال کان الاذان عند خروج الامام فاحدث امیر المؤمنین عثمان التأذینة الثالثة فاذن علی الزوراء لیجتمع الناس فاری ان یترک الشراء والبیع عند التأذینة (د) (مصنف بن ابی شیبة ،٣٧٢ الساعة التی یکرہ فیھا الشراء والبیع ج ثانی ص٥٣٨٩ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اذا ن اول کے پاس پاس ہی خریدو فروخت چھوڑ دینا چاہئے۔ کیونکہ وہی ندا ہے۔
]٣٦٤[(١٩)جب امام منبر پر چڑھ جائے تو منبر پر بیٹھے اور مؤذن منبر کے سامنے اذان دے پھر امام خطبہ دے۔
وجہ اس سب کی دلیل یہ حدیث ہے عن سائب بن یزید قال کان یؤذن بین یدی رسول اللہ ۖ اذا جلس علی المنبر
حاشیہ : (الف) جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور بیع چھوڑ دو (ب) سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن پہلی اذن تھی جب امام منبر پر بیٹھتے تھے۔حضورۖ ، ابو بکر اور عمر کے زمانے میں ۔پس جب عثمان کا زمانہ آیا اور لوگ زیادہ ہو گئے تو مقام زوراء پر تیسری اذان کی زیادتی کی۔ابو عبد اللہ فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ میں ایک بازار کا نام ہے (ج)مسلم بن یسار نے کہا کہ جب جان لو کہ جمعہ کے دن دوپہر ہوگئی تو خرید فروخت چھوڑ دو (د) میں نے زہری سے پوچھا جمعہ کے دن خرید و فروخت کب حرام ہوتے ہیں ؟ تو فرمایا اذان امام کے نکلتے وقت ہوتی تھی تو حضرت عثمان نے تیسری اذان شروع کی تو مقام زوراء پر اذان دلوائی تاکہ لوگ جمع ہو جائیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ اذان کے وقت خریدوفروخت چھوڑ دے۔