الجمعة عند ابی حنیفة وابی یوسف وقال محمد ان ادرک معہ اکثر الرکعة الثانیة بنی علیھا الجمعة وان ادرک معہ اقلھا بنی علیھا الظھر]٣٦٢[ (١٧)واذا خرج الامام یوم
امام محمد کے نزدیک یہ ہے کہ دوسری رکعت کا اکثر حصہ امام کے ساتھ ملا ہے تب تو جمعہ پڑھے گا اور اگر اکثر نہیں ملا ہے تو چونکہ جمعہ کے لئے جماعت شرط ہے اور اکثر حصہ میں جماعت نہیں ملی اس لئے اب جمعہ نہیں پڑھے گا بلکہ ظہر کی چار رکعت پڑھے گا۔
وجہ شیخین کی دلیل مسئلہ نمبر ١٥ والی بخاری کی حدیث ہے کہ جتنا ملا وہ امام کے ساتھ پڑھو اور جتنا فوت ہو گیا اس کو اسی پر بنا کرلو،تو امام کے ساتھ سلام سے پہلے ملا تو اتنا امام کے ساتھ پڑھے گا اور باقی کا اسی پر بنا کرے گا۔ چاہے دوسری رکعت کا اکثر ملا ہو یا اقل ملا ہو(٢) سلام سے پہلے بھی امام کے ساتھ ملا ہو اس کی اتباع میں وہی نماز پڑھنی چاہئے جو انہوں نے پڑھی ہے یعنی جمعہ (٣) ایک حدیث میں ہے عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ من ادرک الامام جالسا قبل ان یسلم فقد ادرک الصلوة (الف) (دار قطنی ، باب فیمن یدرک من الجمعة رکعة او لم یدرکھا ج ثانی ص ١٠ نمبر ١٥٨٩)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سلام سے پہلے بھی امام کے ساتھ مل جائے تو گویا کہ اس نے جمعہ پا لیا۔اس لئے اب دو رکعت جمعہ ہی پڑھے گا۔
وجہ امام محمد کی دلیل مسئلہ نمبر ١٥ کی دار قطنی کی حدیث ہے جس میں کہا گیا کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت پائی وہ دوسری رکعت جمعہ کی ملائے ۔تو اکثر رکعت ایک رکعت کے قائم مقام ہے اس لئے اکثر رکعت پائی تو جمعہ پڑھے گا ورنہ ظہر پڑھے گا۔ان کی دلیل یہ حدیث بھی ہے عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ من ادرک رکعة من الصلوة فقد ادرک الصلوة (ب) (ابو داؤد شریف ،باب من ادرک من الجمعة رکعة ص ١٦٦ نمبر ١١٢١)اس حدیث میں ایک رکعت پانے کا تذکرہ ہے تب ہی جمعہ پڑھے گا۔
]٣٦٢[(١٧) جب امام جمعہ کے دن خطبہ کے لئے نکلے تو لوگ نماز اور کلام کو چھوڑ دیں یہاں تک کہ امام اپنے خطبہ سے فارغ ہو جائے اور صاحبین نے فرمایا کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ بات کرے جب تک امام خطبہ نہ شروع کرے۔
تشریح منبر پر خطبہ کے لئے امام چڑھ جائے تو لوگ باتیں کرنا بی بند کردیںاور نماز پڑھنا بھی بند کردیں۔اور صاحبین فرماتے ہیں کہ امام خطبہ شروع کردیں تب بات کرنا اور نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اس سے پہلے بات کر لی تو حرج کی بات نہیں ہے تا ہم نہیں کرنی چاہئے۔کلام کی ممانعت کی دلیل یہ حدیث ہے ان ابا ھریرة اخبرہ ان رسول اللہ ۖ قال اذا قلت لصحبک یوم الجمعة انصت والامام یخطب فقد لغوت (ج) (بخاری شریف ، باب الانصات یوم الجمعة والامام یخطب ص ١٢٧ نمبر ٩٣٤ مسلم شریف ، فصل فی عدم ثواب من تکلم والامام یخطب ص ٢٨١ کتاب الجمعة نمبر ٨٥١) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنا ساتھی بات کر رہا ہو تو اس کو چپ رہو کہنا بھی غلط ہے۔ اس کو اشارہ سے چپ رہنے کے لئے کہنا چاہئے۔ اور الامام یخطب کے لفظ سے صاحبین نے استدلال کیا ہے کہ امام خطبہ دے رہا ہو اس وقت کلام کرنا مکروہ ہے اس لئے پہلے بات کرنے کی گنجائش ہے۔ اور امام اعظم کے نزدیک منبر پر بیٹھنا بھی خطبہ کا حصہ ہے اس لئے منبر پر بیٹھتے ہی
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا جس نے امام کو بیٹھے ہوئے پایا سلام سے پہلے تو گویا کہ نماز پا لیا (ب)آپۖ نے فرمایا جس نے نماز میں سے ایک رکعت پائی تو گویا کہ نماز پا لی (ج)آپۖ نے فرمایا جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے کہا چپ رہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو یہ بھی لغو بات ہے۔