]٣٤٨[(٣) ومن شرائطھا الوقت فتصح فی وقت الظھر ولا تصح بعدہ ]٣٤٩[(٤) ومن شرائطھاالخطبة قبل الصلوة یخطب الامام خطبتین یفصل بینھما بقعدة۔
علیھم امیر فلیجمع (الف)(سنن للبیھقی ، باب العدد الذین اذ کانوا فی قریة وجبت علیہم الجمعة ،ج ثالث، ص ٢٥٤،نمبر٥٦١٣) عن عمر بن العزیز ... قال لھم حین فرغ من صلوتہ ان الامام یجمع حیث کان (ب) (مصنف عبد الرزاق ، باب الامام یجمع حیث کان ج ثالث ص ١٦١ نمبر ٥١٤٧ مصنف ابن ابی شیبة ،٣٩٠ باب الامام یکون مسافرا فیمر بالموضع ج ثانی ص ٤٧٦،نمبر٥٤٩٩ ) بخاری میں یہ جملہ ہے حدثنا ابو خلدة صلی بنا امیر الجمعة ( بخاری شریف ، باب اذا اشتد الحر یوم الجمعة ص ١٢٤ نمبر ٩٠٦)ان آثار سے معلوم ہوا کہ امیر اور بادشاہ جمعہ قائم کرے ۔
نوٹ جہاں امیر اور بادشاہ نہیں ہے وہاں مسلمان جمع ہو کر جس کو امیر چن لے وہ قائم کرائے گا۔
]٣٤٨[(٣)جمعہ کی شرط میں سے وقت ہوناہے۔اس لئے صحیح ہے ظہر کے وقت میں ،اور نہیں صحیح ہے وقت کے بعد۔
تشریح ظہر کے وقت میں جمعہ صحیح ہے۔اس کے بعد صحیح نہیں ہے۔
وجہ حدیث میں ہے عن انس بن مالک ان رسول اللہ ۖ کان یصلی الجمعة حین تمیل الشمس (ج) (بخاری شریف ، باب وقت الجمعة اذا زالت الشمس ص ١٢٣ نمبر ٩٠٤ مسلم شریف ، باب فی وقت صلوة الجمعة ص ٢٨٣ نمبر ٨٦٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زوال کے بعدجمعہ کی نماز پڑھا کرتے تھے۔اور یہ وقت ظہر کا ہے اس لئے ظہر کے وقت میں پڑھا جائے گا۔ ظہر کا وقت نکل جائے تو پھر جمعہ نہیں پڑھے گا بلکہ ظہر کی قضا پڑھے گا۔اثر میں ہے کان الحجاج یؤخر الجمعة فکنت انا اصلی وابراہیم و سعید بن جبیر فصلیا الظھر ثم نتحدث وھو یخطب ثم نصلی معھم ثم نجعلھا نافلة (د)(مصنف ابن ابی شیبة، ٣٨٧ الجمعة یؤخرھا الامام حتی یذھب وقتھا، ج اول، ص ٤٧٤،نمبر٥٤٨٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ظہر کا وقت ختم ہوجائے تو اب جمعہ نہیں پڑھے گا بلکہ ظہر کی نماز قضا پڑھے گا۔
]٣٤٩[(٤)جمعہ کی شرائط میں سے نماز سے پہلے خطبہ ہے،امام خطبہ دے گا دو خطبے،دونوں کے درمیان فصل کرے گا بیٹھ کر۔
وجہ (١)ظہر کی نماز چار رکعتیں ہیں اور جمعہ کی نماز دو رکعتیں ہیں اس لئے دو رکعت کے بدلے میں دو خطبے ہیں۔ اس لئے خطبہ جمعہ کی شرط ہے(٢) حدیث میں ہے عن ابن عمر قال کان النبی ۖ یخطب قائماثم یقعد ثم یقوم کما یفعلون الآن (ہ) (بخاری
حاشیہ : (الف) عبد اللہ بن عمر سے پوچھا گیا ان گاؤں کے بارے میں جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہیں کہ جمعہ کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ فرمایا ہاں ! اگر ان پر امیر ہوں تو جمعہ قائم کرے (ب) جب نماز سے فارغ ہوئے تو عمر بن عبد العزیز نے ان لوگوں سے کہا امام جمعہ قائم کر سکتے ہیںجہاں بھی ہوں(ج) حضورۖ جمعہ پڑھا کرتے تھے جب سورج ڈھل جاتا تھا(د) حجاج بن یوسف جمعہ کو مؤخر کرتا تو میں ،ابراہیم اور سعید بن جبیر تھا تو ان دونوں نے ظہر کی نماز پڑھ لی تھی پھر ہم بات کرتے رہے۔اس حال میں کہ حجاج خطبہ دے رہا تھا۔پھر ہم نے اس کے ساتھ نماز پڑھی اور اس کو ہم نے نفل کر لیا(ہ )حضورکھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے جیسا آج لوگ کرتے ہیں ۔