]٣٤٣[(١٦) وتجوز الصلوة فی سفینة قاعدا علی کل حال عند ابی حنیفة و عندھما لا
ہے کہ نماز وقت متعین کے ساتھ مومنین پر فرض کی گئی ہے۔ اس لئے وقت سے مقدم یا مؤخر کرنا جائز نہیں ہوگا۔حضرت امام اعظم کی نظر اسی آیت کی طرف گئی ہے اور احتیاط کی طرف گئے ہیں(٢) حدیث سے جمع صوری کی تائید ہوتی ہے عن انس عن النبی ۖ اذا عجل علیہ السفر یؤخر الظھر الی اول وقت العصر فیجمع بینھما ویؤخر المغرب حتی یجمع بینھا و بین العشاء حین یغیب الشفق (الف) (مسلم شریف ، باب جواز الجمع بین الصلوتین فی السفر ص ٢٤٥ نمبر ٧٠٤ ١٦٢٧) بخاری شریف میں ہے عن انس بن مالک قال کان رسول اللہ ۖ اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس اخر الظھر الی وقت العصر ثم نزل فجمع بینھما فاذا زاغت الشمس قبل ان یرتحل صلی الظھر ثم رکب (ب) (بخاری شریف ، باب اذا ارتحل بعد ما زاغت الشمس صلی الظھر ثم رکب ص ١٥٠ نمبر ١١١٢)ان دونوں حدیثوں میں ہے کہ ظہر کو عصر کے وقت کے قریب مؤخر کرکے پڑھتے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ظہر کو اپنے ہی وقت میں پڑھی۔البتہ سفر کی وجہ سے اول وقت کی فضیلت چھوڑ کر مؤخر کرکے پڑھی اور اس کے بعد عصر کو اسی کے وقت میں اول وقت میں پڑھی۔یہی جمع صوری ہے۔اسی بخاری کی حدیث میں ہے کہ ظہر کو اول وقت میں پڑھی تو صرف ظہر پڑھ کر آپ سوار ہوگئے اور عصر کو نہیں پڑھی تا کہ جمع حقیقی نہ ہو(٣) حضرت عبد اللہ بن عمر کا عمل بھی جمع صوری کا رہا جس کی تفصیل ابو داؤد شریف ، باب الجمع بین الصلوتین ص ١٧٨ نمبر ١٢١٢ پر موجود ہے ۔
فائدہ امام شافعی اور دوسرے ائمہ سفر میں جمع حقیقی کے قائل ہیں۔ان کی دلیل اوپر کی احادیث جمع حقیقی پر محمول کرتے ہیں(٢) اور حدیث میں ہے عن ابن عباس قال کان رسول اللہ یجمع بین صلوة الظھر والعصر اذا کان علی ظھر سیر ویجمع بین المغرب والعشاء (ج) (بخاری شریف ، باب الجمع فی السفر بین المغرب والعشاء ص ١٤٩ نمبر ١١٠٧ مسلم شریف ، باب جواز الجمع بین الصلوتین فی السفر ص ٢٤٥ نمبر ٧٠٤ ابو داؤد شریف ، باب باب الجمع بین الصلوتین ص ١٧٨ نمبر ١٢٠٨) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ظہر اور عصرکو ایک ساتھ اور مغرب و عشا کو ایک ساتھ سفر میں پڑھنا جائز ہے۔
]٣٤٣[(١٦)جائز ہے نماز کشتی میں بیٹھ کر ہر حال میں امام ابو حنیفہ کے نزدیک اور صاحبین کے نزدیک جائز نہیں ہے مگر عذر کی بناپر۔
تشریح امام ابوحنیفہ کے زمانے میں کشتی اتنی اچھی نہیں ہوتی تھی ۔تیز حرکت کی وجہ سے مسافر کے سر میں چکر رہتا تھا۔اس لئے گویا کہ ہر وقت سر چکرانے کا ڈر ہے۔ اس لئے انہوں نے فرمایا کہ عذر نہ بھی ہو تب بھی کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ان کی دلیل یہ اثر ہے صلی بنا انس بن مالک فی السفینة قعودا علی بساط وقصر الصلوة (د)(مصنف عبد الرزاق ، باب ھل یصلی الرجل وھو یسوق دابتة ص
حاشیہ : (الف) حضورۖ سے روایت ہے کہ جب سفر کی جلدی ہوتی توظہر کو عصر کے اول وقت تک مؤخر کرتے پھر دونوں کو جمع کرتے ،اور مغرب کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ اس کے درمیان اور عشا کے درمیان جمع کرتے جب شفق غائب ہو جاتا (ب) آپۖ جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر کرتے تو ظہر کو عصر تک مؤخر کرتے پھر اترتے اور دونوں کو جمع کرتے۔اور اگر سفر کرنے سے پہلے سورج ڈھل چکا ہوتا تو ظہر کی نماز پڑھتے پھر سوار ہوتے(ج) حضورۖ ظہر اور عصر کی نمازوں کو جمع کرتے جب سفر پر ہوتے۔اور مغرب اور عشا کے درمیان جمع کرتے(د) انس بن مالک نے ہم کو کشتی میں چٹائی پر بیٹھ کر نماز پڑھائی اور نماز قصر کی۔