تجوز الا بعذر ]٣٤٤[(١٧) ومن فاتتہ صلوة فی السفر قضاھا ھی الحضر رکعتین و من فاتتہ صلوة فی الحضر قضاھا فی السفر اربعا]٣٤٥[(١٨) والعاصی والمطیع فی السفر فی الرخصة سوائ۔
٥٨٠ نمبر ٤٥٤٦ مصنف ابن ابی شیبة ٥٤٢ باب من قال صلی فی السفینة جالسا ج ثانی ص٦٩، نمبر ٦٥٥٩) اس اثر سے معلوم ہوا کہ عذر نہ بھی ہو تب بھی کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔
فائدہ صاحبین کے نزدیک عذر ہو تب ہی بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ ورنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے گا۔ ان کی دلیل یہ اثر ہے عن ابراھیم قال تصلی فی السفینة قائما فان لم تستطع فقاعدا تتبع القبلة حیث مالت (الف) (مصنف عبد الرزاق ، باب الصلوة فی السفینة ج ثانی ص ٥٨١ نمبر ٤٥٥٢ مصنف ابن ابی شیبة ٥٤٣ من قال صلی فیھا قائما ج ثانی ص ٦٩،نمبر ٦٥٧٠) اس اثر سے معلوم ہوا کہ آدمی کو عذر نہ ہو تو کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنا چاہئے۔اور سر چکرانے کا خوف ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھے۔آج کل کشتی اور جہاز میں سر کا چکر نہیں ہوتا اس لئے کھڑے ہو کر نماز پڑھے گا۔تاکہ قیام جو فرض ہے فوت نہ ہو۔
]٣٤٤[(١٧) جس کی نماز فوت ہو گئی سفر میں قضا کرے گا اس کو حضر میں دو رکعت،اور جس کی فوت ہو جائے نماز حضر میں قضا کرے گا اس کو چار رکعت تشریح سفر میںقضا ہوئی تھی تو وہ دو رکعت ہی تھی اس لئے اس کو اقامت کی حالت میںاور حضر میں قضا کرے گا تو دو ہی رکعت قضا کرے گا۔اور حضر کی نماز چار رکعت واجب ہوئی تھی اس لئے سفر کی حالت میں ان کو قضا کرے گا تو چار رکعت ہی قضا کرے گا ۔
وجہ وقت کے بعد رکعت میں تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے جیسی لازم ہوئی تھی ویسی ہی ادا کرنا ہوگا (٢)اس اثر سے اس کی تائید ہوتی ہے عن الثوری قال من نسی صلوة فی الحضر فذکر فی السفر صلی اربعا وان نسی صلوة فی السفر ذکر فی الحضر صلی رکعتین (ب) (مصنف عبد الرزاق ، باب من نسی صلوة الحضر ج ثانی ص ٥٤٣ نمبر ٤٣٨٨) اس اثر سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ حضر کی نماز سفر میں چاررکعت اور سفر کی نماز حضر میں دو رکعت نماز پڑھی جائے گی۔
]٣٤٥[(١٨)نا فرمان اور فرماں بردار سفر میں رخصت کے سلسلے میں برابر ہیں۔
تشریح جو رخصت اور سہولت فرماں بردار کو ملے گی وہی رخصت اور سہولت نا فرمان کو بھی ملے گی۔
وجہ احادیث میں سہولت کے بارے میں فرماں بردار اور نا فرمان کا فرق نہیں ہے۔ اس لئے دونوں کو برابر سہولت ملے گی۔
فائدہ امام شافعی کے نزدیک نافرمان مسافر کو سہولت نہیں ملے گی ۔مثلا چوری کرنے جا رہا ہے تو اس کو دو رکعت نماز پڑھنے اور روزہ افطار کرنے کی سہولت نہیں ہوگی ۔
وجہ ان کے یہاں معصیت نعمت کا سبب نہیں بن سکتی ہے۔اور چونکہ سفر معصیت کا ہے اس لئے سہولت کا سبب نہیں بنے گا۔
حاشیہ : (الف) حضرت ابراہیم نے فرمایا نماز پڑھے کشتی میں کھڑے ہو کر ۔پس اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو بیٹھ کرجدھر کشتی گھومے ویسے ہی قبلہ کی طرف متوجہ ہوتا جائے(ب) حضرت ثوری نے فرمایا جو حضر میں نماز بھول جائے اور سفر میں یاد آئے تو چار رکعت نماز پڑھے۔اور اگر سفر میں نماز بھول جائے اور حضر میں یاد آئے تو دو رکعت نماز پڑھے۔