]٣٤٠[(١٣) ومن کان لہ وطن فاتقل عنہ واستوطن غیرہ ثم سافر فدخل وطنہ الاول لم یتم الصلوة ]٣٤١[(١٤) واذا نوی المسافر ان یقیم بمکة و منی خمسة عشر یوما لم یتم الصلوة]٣٤٢[ (١٥) والجمع بین الصلوتین للمسافر یجوز فعلا ولا یجوز وقتا
]٣٤٠[(١٣)جس کا وطن ہو اور اس سے منتقل ہو گیا اور دوسری جگہ کو وطن بنایا پھر سفر کیا اور پہلے وطن میں داخل ہوا تو نماز پوری نہیں پڑھے گا۔
وجہ (١)پہلا وطن اب وطن نہیں رہا وہ اجنبی شہر بن گیا کیونکہ پہلے وطن کو چھوڑ کر دوسری جگہ کو وطن بنا لیا ہے اس لئے پہلے وطن میں داخل ہوگا تو پوری نماز پڑھے گا (٢) حدیث میں ہے کہ حضورۖ جب مکہ سے ہجرت کر گئے تو جب دو بارہ مکہ آئے تو قصر نماز پڑھی۔ حدیث مسئلہ نمبر ١٢ میں گزر گئی۔
اصول دوسری جگہ وطن اصلی بنانے سے پہلا وطن اصلی باطل ہو جائے گا۔
]٣٤١[(١٤)اگر مسافر نے مکہ اور منی میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی پھر بھی نماز پوری نہیں پڑھے گا ۔
وجہ (١)ایک شہر میں پندرہ دن ٹھہرنے اور رات گزارنے کی نیت کی ہو تب اتمام کرے گا۔یہاں دو جگہ یعنی مکہ اور منی میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی ہے کسی ایک جگہ پر پندرہ دن مکمل نہیں ہوئے اس لئے اتمام نہیں کرے گا(٢) اثر میں موجود ہے کان ابن عمر اذا قدم مکة فاراد ان یقیم خمس عشرة لیلة سرح ظھرہ فاتم الصلوة (الف) (مصنف بن عبد الرزاق ، باب الرجل یخرج فی وقت الصلوة ص ٥٣٤ نمبر ٤٣٤٣) اس اثر میں صرف مکہ میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی ہے تب اتمام کیا ہے(٣) عن ابن عمر انہ کان یقیم بمکة فاذا خرج الی منی قصر (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ٧٣٧ باب فی اہل مکة یقصرون الی منی ج ثانی ص ٢٠٨،نمبر٨١٨٣) اس اثر سے بھی معلوم ہوا کہ دو جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کی ہو تو اتمام نہیں کرے گا قصر ہی کرتا رہے گا۔کیونکہ ایک جگہ پندرہ دن نہیں ہوئے ۔ اس حدیث میں بھی اس کا اشارہ ہے عن عبد اللہ بن عمر قال صلیت مع النبی ۖ بمنی رکعتین وابی بکر و عمر و مع عثمان صدرا من امارتہ ثم اتمھا (ج) (بخاری شریف ، باب الصلوة بمنی ص ١٤٧ نمبر ١٠٨٢ مسلم شریف نمبر ٦٩٤)
]٣٤٢[(١٥) مسافر کے لئے دو نمازوں کے درمیان جمع کرنا جائز ہے فعلا اور جائز نہیں ہے وقت کے اعتبار سے۔
تشریح ظہر کو مؤخر کرے اور اس کو اخیر وقت میں پڑھے اور عصر کو مقدم کرے اور اس کو عصر کے اول وقت میں پرھے،اس کو جمع صوری کہتے ہیں۔ مصنف نے اسی کو فعلا جمع کہا ہے جو جائز ہے۔اور حدیث سے ثابت ہے۔اور عصر کو ظہر کے وقت میں یا ظہر کو عصر کے وقت میں جمع وقتی اور حقیقی کرکے پڑھنا یہ جمع وقتی ہے جو حنفیہ کے نزدیک جائز نہیں ہے۔
وجہ (١)آیت میں ہے ان الصلوة کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا (د)(آیت ١٠٣ سورة النساء ٤)اس آیت میں تاکید کی گئی
حاشیہ : (الف) حضرت ابن عمر جب مکہ آتے اور پندرہ راتیں ٹھہرنے کا ارادہ کرتے تو اپنی پیٹھ ہلکی کرتے اور نماز پوری پڑھتے (ب) حضرت ابن عمر مکہ میں ٹھہرتے ۔پس جب منی کے لئے نکلتے تو قصر کرتے (ج)میں نے حضور کے ساتھ منی میں دو رکعت نماز پڑھی ،اور ابو بکر ، عمر اور عثمان کے ساتھ بھی ان کی شروع خلافت میں ، پھر انہوں نے اتمام کرنا شروع کیا (کیونکہ مکہ میں شادی کرکے مقیم ہو گئے تھے)(د) یقینا نماز مومنین پر فرض ہے وقت کے ساتھ۔