خلفہ ]٣٣٨[(١١) واذا صلی المسافر بالمقیمین صلی رکعتین وسلم ثم اتم المقیمون صلوتھم ویستحب لہ اذا سلم ان یقول لھم اتموا صلوتکم فانا قوم سفر]٣٣٩[(١٢) واذا دخل المسافر مصرہ اتم الصلوة وان لم ینو الاقامة فیہ۔
مزید نفل ملائے گا جو جائز نہیں۔کیونکہ اس پر فرض دو رکعت ہی لازمی طور پر ہے۔جو چار رکعت میں تبدیل نہیں ہوگی۔
اصول وقت گزرنے کے بعد مسافر کی نماز کی رکعتوں میں تبدیلی نہیں ہوگی۔
نوٹ اوپر کے مسئلہ میں وقت کے اندر تبدیلی ہوئی تھی۔
]٣٣٨[(١١) اگر مسافر امام مقیم کو نماز پڑھائے تو دو رکعت نماز پڑھے اور سلام پھیردے، پھر مقیم اپنی نماز پوری کرے ۔اور امام کے لئے مستحب ہے کہ جب سلام پھیرے تو مقتدیوں سے یوں کہے' تم لوگ اپنی نماز پوری کرلو کیونکہ ہم مسافر لوگ ہیں'۔
وجہ مسافر پر دو رکعت ہی نماز ہے۔اس لئے وہ دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیںگے۔اور مقتدی مقیم ہے اس لئے اس پر چار رکعت ہیں۔اس لئے وہ باقی دو رکعت بعد میں پوری کریںگے۔مقتدی بعض مرتبہ بھول جاتے ہیں اس لئے وہ سلام پھیر دیتے ہیں۔اس لئے امام اپنی مسافرت کا اعلان کر دیںگے تو ان کو یاد آ جائے گا۔ اس لئے مستحب ہے کہ کہے 'ہم مسافر لوگ ہیں آپ اپنی اپنی نمازیں پوری کرلیں'(٢) حدیث میں اس کا ثبوت ہے عن عمران بن حصین قال غزوت مع رسول اللہ ۖ وشھدت معہ الفتح فاقام بمکة ثمانی عشرة لیلة یصلی الا رکعتین ویقول یا اھل البلد صلوا اربعا فانا قوم سفر (الف) (ابو داؤد شریف ، باب متی یتم المسافر ص ١٨٠ نمبر ١٢٢٩ مصنف عبد الرزاق ، باب مسافر ام مقیمین ج ثانی ص ٥٤٠ نمبر ٤٣٦٩) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام دو رکعت پوری کرکے سلام پھیرے گا اور کہے گا میں مسافر ہوں مقیم اپنی اپنی نماز پوری کر لیں۔
]٣٣٩[(١٢) مسافر اپنے شہر میں داخل ہو گیا تو نماز پوری پڑھے گا اگر چہ اس میں اقامت کی نیت نہ کی ہو۔
تشریح مثلا مسافر اپنے وطن اصلی میں واپس آیا اور چند دن کے بعد ہی پھر سفر پر جانا ہے تب بھی شہر یا فنائے شہر میں داخل ہوتے ہی پوری نماز پڑھے گا۔کیونکہ فورا وہ مقیم ہو گیا۔
وجہ حدیث میں ہے سمعت انسا یقول خرجنا مع النبی ۖ من المدینة الی مکة فکان یصلی رکعتین رکعتین حتی رجعنا الی المدینة (ب) (بخاری شریف ، باب ماجاء فی التقصیر وکم یقیم حتی یقصر ص ١٤٧ نمبر ١٠٨١ مسلم شریف ، فصل الی متی یقصر اذا اقام ببلدہ ص ٢٤٣ نمبر ٦٩٣) اس حدیث میں ہے کہ مدینہ داخل ہوئے تو چار رکعت نماز پڑھی (چاہے وہاں اقامت کی نیت کرے یا نہ کرے)
حاشیہ : (الف) عمران بن حصین فرماتے ہیں کہ میں نے حضور کے ساتھ غزوہ کیا۔اور میں ان کے ساتھ فتح مکہ میں موجود تھا۔تو مکہ میں اٹھارہ دن ٹھہرے ۔نہیں نماز پڑھتے تھے مگر دو رکعت اور فرماتے اے شہر والو تم لوگ چار رکعتیں پڑھ لو،ہم مسافر ہیں(ب) حضرت انس فرماتے ہیں کہ ہم حضور کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے تو دو رکعت نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ مدینہ واپس آئے۔