عشر یوما فصاعدا فیلزمہ الاتمام فان نوی الاقامة اقل من ذلک لم یتم ]٣٣٤[(٧) ومن دخل ولم ینو ان یقیم فیہ خمسة عشر یوما وانما یقول غدا اخرج او بعد غد اخرج حتی
مسلم شریف ، فصل الی منی یقصر اذا اقام ببلدہ ص ٢٤٣ نمبر ٦٩٣ ابو داؤد شریف ، باب متی یتم المسافر ص ١٨٠ نمبر ١٢٣٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دس دن سے زائد کی اقامت کی نیت کرے گا تو اتمام کرے گا۔لیکن حنفیہ نے دونوں کے درمیان کو لیا ہے جو اوسط ہے۔ یعنی پندرہ دن کی اقامت کی نیت کرے گا تو اتمام کرے گا۔اور ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔ (١)عن ابن عباس قال اقام رسول اللہ بمکة عام الفتح خمس عشرة یقصر الصلوة (الف) (ابو داؤد شریف ، باب متی یتم المسافر ص ١٨٠ نمبر ١٢٣١ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی کم تقتصر الصلوة ص ١٢٢ نمبر ٥٤٨)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پندرہ دن تک ٹھہرنے کی نیت کرے تو اتمام کرے گا (٢) اس کی تائید میں یہ اثر بھی ہے قال کان ابن عمر اذا اجمع علی اقامة خمس عشرة سرح ظھرہ وصلی اربعا (ب) مصنف ابن ابی شیبة٧٤١ باب من قال اذا اجمع علی اقامة خمسة عشرة اتم ج ثانی ص ٢١١،نمبر٨٢١٧ مصنف بن عبد الرزاق ، باب الرجل یخرج فی وقت الصلوة ج ثانی ص ٥٣٤ نمبر ٤٣٤٨ ) اس اثر سے معلوم ہوا کہ وطن اقامت بننے میں پندرہ دن کا اعتبار ہے ۔
فائدہ امام شافعی کے نزدیک اگر چار دن ٹھہرنے کا ارادہ کرے تو اتمام کرے گا۔
وجہ اوپر حدہث گزری کہ حضورۖ حج کے موقع پر مکہ میں دس دن ٹھہرے تھے لیکن ایک ساتھ صرف مکہ میں تین دن ٹھہرے ہیں ۔پانچواں ، چھٹا اور ساتواں ذی الحجہ کو اور باقی دن منی ، مزدلفہ اور عرفات میں ٹھہرے ہیں۔ جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر ایک ساتھ مکہ میں چار دن ٹھہرے تو اتمام کرے (٢) ان کی دلیل یہ اثر ہے عن ابن المسیب قال اذا اقمت بارض اربعا فصل اربعا (ج) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی کم تقصیر الصلوة ص ١٢٢ نمبر ٥٤٨ مصنف عبد الرزاق ، باب الرجل یخرج فی وقت الصلوة ج ثانی ص ٥٣٤ نمبر ٤٣٤٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ چار دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو چار رکعت نماز پڑھے گا۔
]٣٣٤[(٧) اگر کوئی شہر میں داخل ہوا اور اس میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت نہیں کی صرف کہتا رہا کہ کل نکلونگا یا پرسوں نکلونگا یہاں تک کہ اسی پر کئی سال باقی رہا تو دو رکعت نماز پڑھے گا۔
وجہ (١)جب تک کہ کسی ایک شہر میں پندرہ دن ٹھہرنے کا پختہ ارادہ نہ کرے اس وقت تک قصر کرتا رہے گا۔ اگر یہ کہے کہ آج جاؤں گا یا کل جاؤں گا ۔اس طرح کرتے کرتے کئی سال ٹھہر گیا تب بھی وہ مسافر ہی ہے۔قصر کرتا رہے گا(٢) اس کا ثبوت مسئلہ نمبر ٦ کے اثر میں ہے قال ابن عمر اذا اجمع علی اقامة خمس عشر سرح ظھرہ وصلی اربعا (د) (مصنب ابن ابی شیبة ص ٣٤٣) اس میں کہا گیا ہے کہ پندرہ رہنے کا پختہ ارادہ کرے تو اتمام کرے گا۔اور اگر پختہ ارادہ نہ کرے تو قصر کرے گا (٣) حضورۖ فتح مکہ کے موقع پر مکہ تشریف لائے
حاشیہ : (الف) ابن عباس فرماتے ہیں کہ حضور مکہ میں فتح مکہ کے دن پندرہ دن ٹھہرے اور نماز قصر کرتے رہے(ب) حضرت ابن عمر کہا کرتے تھے جب کہ پندرہ دن کے ٹھہرنے کا پختہ ارادہ کرے اور اپنی پیٹھ کو ہلکا کردے تو چار رکعت نماز پڑھے (ج)ابن مسیب نے فرمایا اگر کسی زمین میں چار روز ٹھہرے تو چار چار رکعت نماز پڑھے (د)ابن عمر فرماتے تھے جب پندرہ دن ٹھہرنے کا پختہ ارادہ کرے اور پیٹھ ہلکی کرے تو چار رکعت نماز پڑھے۔