بیوت المصر]٣٣٣[ (٦) ولا یزال علی حکم المسافر حتی ینوی الاقامة فی بلدة خمسة
وجہ حدیث میں ہے عن انس بن مالک قال صلیت الظھر مع رسول اللہ ۖ بالمدینة اربعا والعصر بذی الحلیفة رکعتین (الف) (بخاری شریف ، باب یقصر اذا خرج من موضعہ ص ١٤٨ نمبر ١٠٨٩)اس حدیث میں جب تک مدینہ میں رہے اس وقت تک چار رکعت نماز پڑھی اور مدینہ سے باہر مقام ذو الحلیفة چلے گئے تو چو نکہ شہر سے نکل گئے تو دو رکعت نماز پڑھی (٢) اثر میں ہے ان علیا لما خرج الی البصرة رأی خصا فقال لولا ھذا الخص لصلینا رکعتین فقلت ما خصا ؟ قال بیت من قصب (ب) (مصنف عبد الرزاق ، باب المسافر متی یقصر اذا خرج مسافرا ج ثانی ص ٥٢٩ نمبر ٤٣١٩) کوفہ کے باہر بانس کے جھونپڑے تھے اس لئے حضرت علی نے فرمایا کہ ان جھونپڑوں سے آگے بڑھتے تو دو رکعت نماز پڑھتے لیکن ان جھونپڑوں کے پاس ہیں اس لئے چار رکعت نماز پڑھیںگے۔کیونکہ فنائے شہر میں ابھی موجود ہیں۔
]٣٣٣[(٦) ہمیشہ مسافرت کے حکم پر رہے گا۔یہاں تک کہ کسی شہر میں پندرہ دن کی اقامت کی نیت کرے یا زیادہ کی۔پس اس کو اتمام لازم ہوگا۔اور اگر اس سے کم اقامت کی نیت کی تو اتمام نہیں کرے گا ۔
تشریح کسی ایک شہر میں پندرہ دن تک ٹھہرنے کی نیت کرے گا تو وہ وطن اقامت ہو جائے گا اس لئے اب وہ دو رکعت نماز کے بجائے چار رکعت نماز پڑھے گااور اتمام کرے گا۔ اور اگر کسی شہر میں پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کی تو وہ قصر ہی کرے گااتمام نہیں کرے گا۔ کیونکہ حنفیہ کے نزدیک پندرہ دن سے کم وطن اقامت نہیں ہے۔
وجہ حدیث میں ہے عن ابن عباس قال اقام النبی ۖ تسعة عشر یقصر فنحن اذا سافرنا تسعة عشر قصرنا وان زدنا اتممنا (ج) (بخاری شریف ، باب ما جاء فی التقصیرکم یقیم حتی یقصر ص ١٤٧ نمبر ١٠٨٠ ابو داؤد شریف ، باب متی یتم المسافر ص ١٨٠ نمبر ١٢٢٩) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ مکہ مکرمہ میں انیس روز رہے ہیں ۔ابو داأد کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہ روز رہے ہیں۔ اور ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سترہ روز رہے ہیں اور پھر بھی قصر کرتے رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سترہ دن یا انیس دن سے کم اقامت کرے تو قصر کرے گا۔اور بخاری شریف ، مسلم شریف اور ابو داؤد شریف کی دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپۖ مکہ میں دس دن ٹھہرے تھے۔ سمعت انسا یقول خرجنا مع النبی ۖ من المدینة الی مکة فکان یصلی رکعتین رکعتین حتی رجعنا الی المدینة قلت اقمتم بمکة شیئا؟ قال اقمنا عشرا (د) (بخاری شریف ، باب ماجاء فی التقصیر وکم یقیم حتی یقصر ص ١٤٧ نمبر ١٠٨١
حاشیہ : (الف) انس بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے حضورۖ کے ساتھ ظہر کی نماز مدینہ میں چار رکعت پڑھی اور عصر کی نماز ذو الحلیفة میں دو رکعت پڑھی(ب) حضرت علی جب بصرہ کی طرف نکلے تو بانس کا گھر دیکھا تو فرمایا اگر یہ بانس کا گھر نہ ہوتا تو میں دو رکعت نماز پڑھتا۔میں نے کہا خص کیا چیز ہے ؟ کہا بانس کا گھر (ج)ابن عباس فرماتے ہیں کہ آپۖ انیس دن ٹھہرے اور قصر کرتے رہے۔ پس اگر ہم سفر کریں اور انیس دن ٹھہریں تو قصر کریں اور اگر زیادہ کریں تو اتمام کریں(د) حضرت انس نے فرمایا کہ ہم حضورۖ کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لئے نکلے تو آپۖ دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔یہاں تک کہ مدینہ واپس آئے۔میں نے کہا کہ مکہ میں کچھ ٹھہرے ؟ کہا کہ ہم دس دن ٹھہرے۔