علیھما]٣٣٠[ (٣) فان صلی اربعا وقد قعد فی الثانیة مقدار التشھد اجزأتہ الرکعتان عن فرضہ وکانت الاخریان لہ نافلة]٣٣١[ (٤) وان لم یقعد فی الثانیة مقدار التشھد فی الرکعتین الاولیین بطلت صلوتہ ]٣٣٢[(٥) ومن خرج مسافرا صلی رکعتین اذا فارق
ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوة (الف)(آیت ١٠١ سورة النساء ٤)نماز میں قصر کرو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے ۔آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔لیکن اتمام کرے تو بہتر ہے۔ہم کہتے ہیں کہ دوسری دو رکعت کو چھوڑ دے تو ان کے یہاں بھی اس کی قضا نہیں ہے اور نہ اس کے چھوڑنے پر گناہ ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری دو رکعت سفر میں نفل کی طرح ہوجاتی ہے۔اور نفل کو فرض کے ساتھ ملا کر پڑھنا اچھا نہیں ہے۔اس لئے دوسری دو رکعت ملا کر نہیں پڑھی جائے گی۔
]٣٣٠[(٣)پس اگر مسافر نے چار رکعت پڑھ لی اور دوسری رکعت میں تشہد کی مقدار بیٹھا تو اس کو دو رکعت فرض سے کافی ہوگی اور دوسری دو اس کے لئے نفل ہوگی ۔
تشریح مسافر کو دو ہی رکعت پڑھنی چاہئے تھی لیکن اس نے چار رکعت پڑھ لی تو گویا کہ دو رکعت فرض کے ساتھ دو رکعت نفل کو بھی ملا لیا، پس اگر دو رکعت کے بعد تشہد میں بیٹھا ہے تو گویا کہ تمام فرائض پورے ہو گئے اور فرائض پورے ہونے کے بعد اس نے نوافل کو ملایا۔اس لئے پہلی دو رکعتیں فرض ہوںگی اور دوسری دو رکعتیں نفل ہوںگی۔اور کراہیت کے ساتھ نماز ہو جائے گی۔کیوں کہ فرض کا سلام باقی تھا اور اس کی تاخیر کی ہے۔
اصول فرائض پورے ہونے کے بعد نوافل کو فرض کے ساتھ ملایا تو فرض کراہیت کے ساتھ ادا جائے گا۔
]٣٣١[(٤) اور اگر دوسری رکعت میں نہیں بیٹھا تشہد کی مقدار پہلی دو رکعتوں کے بعد تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی۔
تشریح دو رکعت کے بعد قعدۂ اخیرہ جو مسافرپر فرض تھا کرنا چاہئے تھا اور اس نے نہیں کیا اور دوسری رکعتوں کو ملا دیا جو نفل ہیں تو پہلی دورکعت فرض فاسد ہو کر نفل ہو جائے گی ۔
وجہ (١)کیونکہ قعدۂ اخیرہ فرض تھا اس کو چھوڑ دیا اور نفل کو اس کے ساتھ ملا دیا(٢) اثر میں اس کا ثبوت موجود ہے ان ابن مسعود قال من صلی فی السفر اربعا اعاد الصلوة (ب)(مصنف بن عبد الرزاق ،باب من اتم فی السفر ج ثانی ص ٥٦٢ نمبر ٤٤٦٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ مسافر نے چار رکعت نماز پڑھ لی تو نماز لوٹائے گا (اگر تشہد میں نہ بیٹھا تو)
]٣٣٢[(٥) جو مسافر بن کر نکلے تو اس وقت دو رکعت نماز پڑھنا شروع کرے گاجب شہر کے گھروں سے جدا ہو جائے۔
تشریح سفر کی نیت سے گھر سے نکل چکا ہے لیکن جب تک شہر اور فنائے شہر میں ہے تو گویا کہ گھر میں ہے اس لئے ابھی قصر نہ کرے بلکہ جب شہر کے گھروں سے نکل کر جدا ہو جائے اور نماز پڑھنے کی ضرورت پڑے تو قصر کرے۔
حاشیہ : (الف) جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر کوئی حرج کی بات نہیں ہے کہ نماز میں قصر کرو(ب) حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا جس نے سفر میں چار رکعت نماز پڑھی تو نماز کو لوٹائے۔