یقصد ]٣٢١[(٣) فاذا تلا الامام آیة السجدة سجدھا و سجد الماموم معہ ]٣٢٢[(٤) فان تلا الماموم لم یلزم الامام ولا الماموم السجود]٣٢٣[ (٥) وان سمعوا وھم فی الصلوة آیة سجدة من رجل لیس معھم فی الصلوة لم یسجدوھا فی الصلوة فان سجدوھا فی الصلوة لم تجز لھم ولم تفسد صلوتھم۔
ارادے سے سنے تو سجدہ ضروری ہے ورنہ نہیں۔
]٣٢١[(٣)پس اگر امام نے آیت سجدہ پڑھی تو اس کا سجدہ کرے گااور مقتدی بھی اس کے ساتھ سجدہ کرے گا۔
وجہ (١) پہلے گزر چکا ہے کہ امام ضامن ہے اس لئے امام پر سجدۂ تلاوت واجب ہوگا تو مقتدی پر بھی واجب ہو جائے گا(٢) اس کے لئے دلیل یہ بھی ہے کہ مسئلہ نمبر ٢ میں ہے کان النبی ۖ یقرأ السجدة و نحن عندہ فیسجد ونسجد معہ (الف) (بخاری شریف ، باب ازدحام الناس ص ١٤٦ نمبر ١٠٧٦) اس حدیث میں ہے کہ حضورۖ سجدہ کرتے تھے اور ہم لوگ بھی ان کی اقتدا میں سجدہ کرتے تھے۔
]٣٢٢[(٤) پس اگر مقتدی نے آیت سجدہ پڑھی تو نہ امام کو لازم ہوگا اور نہ مقتدی کو سجدہ لازم ہوگا۔
وجہ مقتدی امام کے تابع ہے اس لئے اگر مقتدی نے آیت سجدہ پڑھی تو اس کی وجہ سے امام پر سجدہ لازم نہیں ہوگا۔اور مقتدی امام کے خلاف کرکے سجدہ نہیں کر سکتا ورنہ امام کی مخالفت لازم ہوگی اس لئے نہ امام پر سجدہ لازم ہوگا اور نہ مقتدی پر لازم ہوگا (٢) امام ابو حنیفہ کے اعتبار سے مقتدی کو قرأت ہی نہیں کرنی چاہئے۔اس نے جو قرأت کی ہے یہی خلاف قاعدہ کی ہے۔اس لئے کسی پر سجدہ لازم نہیں ہوگا۔
]٣٢٣[(٥) اگر لوگ نماز میں ہوں اور انہوں نے آیت سجدہ ایسے آدمی سے سنی جو ان کے ساتھ نماز میں نہ ہوتو لوگ نماز میں اس کا سجدہ نہ کرے ،اور اگر نماز ہی میں سجدہ کر لیا تو ان کو کافی نہ ہوگا،لیکن ان کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔
تشریح کچھ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ایک آدمی اس نماز میں نہیں تھا اس نے آیت سجدہ پڑھی اور انمازی لوگوں نے اس کو سنی تو نماز ی لوگوں کو چاہئے کہ ابھی اس کا سجدہ نہ کرے بلکہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس کا سجدہ کرے۔لیکن اگر انہوں نے نماز ہی میں سجدہ کر لیا تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔
وجہ یہ سجدہ نماز کے اعمال میں سے نہیں ہے۔اس کا سبب نماز کے باہر سے آیا ہے۔اس لئے اس کو نماز میں ادا نہیں کرنا چاہئے۔نماز سے باہر ادا کرنا چاہئے۔تاہم کر دیا تو چونکہ خلاف نماز کام نہیں ہے اس لئے نماز فاسد نہیں ہوگی (٢) اس اثر سے اس کی تائید ہوتی ہے عن طاؤس فی الرجل سمع السجدة وھو فی الصلوة قال لا یسجد (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ٢١٦ باب یسمع السجدة قرأت وھو فی الصلوة من قال لا یسجد ،ج اول، ص ٣٧٤،،نمبر ٤٣٠٣اس باب میں کئی اثر ہیں مصنف عبد الرزاق ، باب اذا سمعت السجدة وانت تصلی ج ثالث ص
حاشیہ : (الف) آپۖ آیت سجدہ پڑھتے اور ہم ان کے پاس ہوتے تو وہ بھی سجدہ کرتے اور ہم بھی ان کے ساتھ سجدہ کرتے(ب) حضرت طاؤس سے اس آدمی کے بارے میں روایت ہے جس نے آیت سجدہ سنی اس حال میں کہ وہ نماز میں ہے تو فرمایا کہ وہ ابھی سجدہ نہ کرے۔