]١٥٦[ (١٠) ویکرہ ان یقیم علی غیر وضوئ]١٥٧[ (١١) او یؤذن وھو جنب]١٥٨[ (١٢) ولا یؤذن لصلوة قبل وقتھا الا فی الفجر عند ابی یوسف۔
(الف)(ترمذی شریف، باب ما جاء فی کراہیة الاذان بغیر وضوء ص ٥٠ نمبر ٢٠٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بغیر وضو کے اذان اور اقامت کہنا مکروہ ہے۔
]١٥٦[(١٠)اور مکروہ ہے کہ اقامت کہے بغیر وضو کے۔
وجہ اوپر گزر چکی ہے کہ دوسروں کو نماز کی طرف بلائے اور خود نماز چھوڑ کر وضو کے لئے جائے تو کتنی بری بات ہے؟
]١٥٧[(١١) یا اذان دے اس حال میں کہ وہ جنبی ہو تو (وہ مکروہ ہے)
وجہ جب بغیر وضو کے اذان دینا مکروہ ہے تو جنابت کی حالت میں اذان دینا بدرجۂ اولی مکروہ ہوگا (٢) حدیث مسئلہ نمبر ٩ میں گزر گئی ہے۔ (ترمذی شریف، نمبر ٣٠٠)
]١٥٨[(١٢) نہیں اذن دی جائے نماز کے لئے اس کے وقت سے پہلے مگر فجر میں امام ابو یوسف کے نزدیک
وجہ (١) اذان دینے کا مقصد وقت بتانا ہے۔ لیکن وقت سے پہلے اذان دینے سے وقت کی تجہیل ہوگی ۔اس لئے وقت سے پہلے اذان نہ دی جائے (٢)مدینہ طیبہ میں فجر کی اذان وقت سے پہلے دی جاتی تھی وہ تہجد والوں کو بیدار کرنے کے لئے اور جو تہجد پڑھ چکے ہیں ان کو آرام کرنے کی اطلاع دینے کے لئے تھی۔چنانچہ مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ کی طرح تہجد پڑھنے والے کثرت سے ہوں تو ان کو بیدار کرنے کے لئے اذان دی جا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فجر کی نماز کے لئے عبد اللہ بن مکتوب دوسری اذان دیا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے عن عبد اللہ بن مسعود عن النبی ۖ قال لایمنعن احدکم او احدا منکم اذان بلال من سحورہ فانہ یؤذن او ینادی بلیل لیرجع قائمکم ولینبہ نائمکم (ب) (بخاری شریف، باب الاذان قبل الفجر ص ٨٧ نمبر ٦٢١ نسائی شریف ، باب الاذان فی غیر وقت الصلوہ ص ٧٥ نمبر ٦٤٢)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رات میں حضرت بلال کی اذان فجر کی نماز کے لئے نہیں تھی،تہجد والوں کو بیدار کرنے کے لئے تھی۔اسی لئے نماز کے وقت حضرت عبد اللہ ابن مکتوب دو بارہ اذان دیا کرتے تھے۔حدیث میں ہے(٣) عن عائشة عن النبی ۖ انہ قال ان بلالا یؤذن بلیل فکلوا واشربوا حتی یؤذن ابن ام مکتوم (ج) (بخاری شریف ، باب الاذان قبل الفجر ص ٨٧ نمبر ٦٢٢ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الاذان باللیل ص ٥٠ نمبر ٢٠٣) (٤) وقت سے پہلے اذن دینے سے اذان لوٹا نی پڑے گی حدیث میں ہے عن ابن عمر ان بلالا اذن بلیل فامرہ النبی ۖ ان ینادی ان العبد قد نام (د)(ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الاذان باللیل
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا کہ اذان نہ دے مگر وضو کی حالت میں(ب) آپۖ نے فرمایا تم میں سے کسی ایک کو بلال کی اذان سحری سے نہ روکے اس لئے کہ وہ اذان دیتے ہیں رات میں تاکہ تم میں سے تہجد میں کھڑے ہونے والے لوگ واپس ہو جائیں اور تم میں سے سونے والے بیدار ہو جائیں(ج) آپۖ نے فرمایا کہ بلال رات میں اذان دیتے ہیں اس لئے سحری کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ عبد اللہ بن مکتوم اذان دے(د) حضرت عبد اللہ ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت بلال نے رات میں اذان دے دی تو حضورۖ نے ان کو حکم دیا کہ پکار کر کہو کہ میں نیند میں تھا ۔