ا ]١٥٤[(٨) و یؤذن للفائتة ویقیم فان فاتتہ صلوات اذن للاولی واقام وکان مخیرا فی الثانیة ان شاء اذن واقم وان شاء اقتصر علی الاقامة]١٥٥[ (٩) وینبغی ان یؤذن ویقیم علی طھر فان اذن غیر وضوء جاز۔
شمالا ولم یستدر (الف)(ابو داؤد شریف ، باب فی المؤذن یستدیر فی اذانہ ص ٨٤ نمبر ٥٢٠) اس حدیث سے معلوم ہواکہ حی علی الصلوة اور حی علی الفلاح میں چہرہ دائیں اور بائیں پھرانا چاہئے۔
]١٥٤[(٨) بہت سی فائتہ نمازوں کے لئے اذان دی جائے گی اور اقامت کہی جائے گی پس اگربہت سی نمازیں فوت ہو جائیں تو پہلی نماز کے لئے اذان دے اور اقامت کہے۔اور دوسری نمازوں میں اختیار ہے اگر چاہے تو ہر ایک کے لئے اذان دے اور اقامت کہے اور اگر چاہے تو صرف اقامت پر اکتفا کرے۔
تشریح ایک نماز فائتہ ہو اس کے لئے اذان کہی جائے گی اور اقامت کہی جائے گی۔اور اگر بہت سی نمازیں ہوں تو اختیار ہے چاہے ہر ایک کے لئے اذان دے اور ہر ایک کے لئے اقامت کہے اور چاہے تو صرف پہلی کے لئے اذن دے اور باقی ہر ایک کے لئے اقامت کہے۔
وجہ حدیث میں ہے قال عبد اللہ ان المشرکین شغلوا رسول اللہ ۖ عن اربع صلوات یوم الخندق حتی ذھب من اللیل ماشاء اللہ فامر بلالا فاذن ثم اقام فصلی الظہر ثم اقام فصلی العصر ثم اقام فصلی المغرب ثم اقام فصلی العشاء (ب) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الرجل تفوتہ الصلوات بایتھن یبدأ ص ٤٣ نمبر ١٧٩ نسائی شریف ، باب کیف یقضی الفوائت من الصلوة ص ٧٢ نمبر ٦٢٣) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک مرتبہ اذان دے اور باقی کے لئے اقامت کہے(اور چاہے تو ہر ایک نماز کے لئے اذان بھی کہے) (٢)اذان کا مقد لوگوں کو باہر سے بلانا ہے اور ہر ایک اذان میں سب جمع ہو چکے ہیں اس لئے باقی نمازوں کے لئے اذان دینے کی چنداں حاجت نہیں ہے۔ البتہ ہر فرض نماز اذان کے ساتھ شروع ہے اس لئے اگر ہر ایک کے لئے اذان دے تو دے سکتا ہے۔
]١٥٥[(٩) مناسب ہے کہ اذان اور اقامت وضو کے ساتھ کہے۔پس اگر اذان بغیر وضو کے دیدی تو جائز ہے۔
وجہ (١) اذان میں نماز کی طرف بلانا ہے اور ذکر ہے اس لئے وضو کے ساتھ اذان کہے ۔اور اقامت کے بعد تو نماز ہی پڑھنا ہے تو دوسرے لوگ نماز میں مشغول ہوں اور خود نماز کی طرف بلانے والا وضو کرنے جائے تو کتنا برا معلوم ہوگا ۔اس لئے اقامت بغیر وضو کے کہنا مکروہ ہے۔البتہ اگر کہہ دیا تو اقامت ادا ہو جائے گی(٢) حدیث میں ہے عن ابی ھریرة عن النبی ۖ قال لا یؤذن الا متوضیٔ
حاشیہ : (الف) ابی جحیفة فرماتے ہیں کہ میں حضورۖ کے پاس مکہ آیا۔آپ ۖچمڑے کے سرخ قبے میں تھے تو بلال نکلے۔پس اذان دی تو میں حضرت بلال کے چہرے کی اتباع کر رہا تھا ۔وہ کبھی اس طرف کبھی اس طرف چہرہ کرتے تھے ...پس جب حی علی الصلوة اور حی علی الفلاح پر پہنچے تو اپنی گردن کو دائیں اور بائیں جانب پھیرا لیکن مکمل نہیں گھومے(ب)عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ مشرکین نے حضورکوغزوۂ خندق کے دن چار نمازوں سے مشغول کر دیا۔یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ چلا گیا تو بلال کو حکم دیا تو انہوں نے اذان کہی پھر اقامت کہی اور ظہر کی نماز پڑھی پھر اقامت کہی اور عصر کی نماز پڑھی پھر اقامت کہی اور مغرب کی نماز پڑھی پھر اقامت کہی اور عشا کی نماز پڑھی۔