مرتین ]١٥١[(٥) و یترسل فی الاذان و یحدر فی الاقامة]١٥٢[(٦) ویستقبل بھما القبلة]١٥٣[ (٧) فاذا بلغ الی الصلوة والفلاح حول وجھہ یمینا وشمال۔
دلیل بہت سی احادیث ہیں۔مثلا عن انس قال امر بلال ان یشفع الاذان وان یوتر الاقامة الا الاقامة (الف)(بخاری شریف ، باب الاقامة واحدة الا قولہ قد قامت الصلوة ص ٨٥ نمبر ٦٠٧ مسلم شریف ، باب الامر بشفع الاذان وایتار الاقامة ص ١٦٤ نمبر ٣٧٨)ان احادیث کی وجہ سے جمہور ائمہ اقامت کے فرادی فرادی کے استحباب کے قائل ہیں۔حنفیہ کہ یہاں بھی اگر اقامت فرادی دے دے تو اقامت میں کوئی کراہیت نہیں ہے۔صرف افضلیت کا فرق ہے۔
]١٥١[(٥)ٹھہر ٹھہر کر کرے اذان میںاور جلدی کرے اقامت میں ۔
وجہ اذان میں آواز دور تک پہنچانا ہے اس لئے تھوڑا ٹھہر ٹھہر کر کلمات ادا کرے اور اقامت میں مسجد تک آواز پہنچانا ہے اس لئے مسلسل کہتا چلا جائے ٹھہر ٹھہر کر نہ کہے (٢) عن جابر ان رسول اللہ ۖ قال لبلال یا بلال! اذا اذنت فترسل فی ذلک واذا اقمت فاحدر (ب) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی الترسل فی الاذان ص ٤٨ نمبر ١٩٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان ٹھہر ٹھہر کر دے اور اقامت میں جلدی کرے۔یہ مستحب ہے۔
لغت ترسل : ٹھہر ٹھہر کر بات کرنا، یحدر : مسلسل بات کہے جانا۔
]١٥٢[(٦)اذان اور اقامت کہتے وقت قبلہ کا استقبال کرے ۔
وجہ اذان اور اقامت کہتے وقت قبلے کا استقبال کرنا سنت ہے۔ لیکن اگر اس کے خلاف کیا تو اذان اور اقامت کی ادائیگی ہو جائے گی۔البتہ سنت کی مخالفت ہوگی (٢) حدیث میں اس کا ثبوت ہے ابو داؤد میں معاذ بن جبل کی لمبی حدیث ہے اس میں ایک عبارت اس طرح ہے فجاء عبد اللہ بن زیدالی رجل من الانصار وقال فیہ فاستقبل القبلة(ج) (ابو داؤد شریف، باب کیف الاذان ص ٨٢ نمبر ٥٠٧)باب فی الاقامة سے پہلے یہ حدیث ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے نے استقبال قبلہ کرکے اذان دی تھی اس لئے استقبال قبلہ کر کے اذان و اقامت کہنا سنت ہے۔
]١٥٣[(٧)پس جب کہ حی علی الصلوة اور حی علی الفلاح پر پہنچے تو اپنے چہرے کو دائیں اور بائیں پھیرے۔
تشریح حی علی الصلوة میں دائیں جانب چہرہ پھیرے تاکہ دائیں جانب والوں کو اذان کی خبر پہنچ جائے اور حی علی الفلاح میں بائیں طرف چہرہ پھیرے تاکہ بائیں جانب والوں کواذان کی خبر پہنچ جائے۔
وجہ اس کی وجہ حدیظ میں یہ ہے (١) عن عون بن جحیفة عن ابیہ قال اتیت النبی ۖ بمکة وھو فی قبة حمراء من ادم فخرج بلال فاذن فکنت اتتبع فمہ ھھنا و ھھنا... فلما بلغ حی علی الصلوة حی علی الفلاح لوی عنقہ یمینا و
حاشیہ : (الف)آپۖ نے حکم دیا بلال کو کہ اذان کو شفع کرے اور اقامت کو وتر کرے مگر قد قامت الصلوة کو(ب) آپۖ نے بلال سے فرمایا اے بلال جب اذان دو تو اس میں ٹھہر ٹھہر کر دو اور جب اقامت کہو تو مسلسل کہتے چلے جاؤ(ج) عبد اللہ بن زید نے فرمایا کہ فرشتہ نے قبلہ کی طرف استقبال کیا (اور اذان دی)۔