]١٤٣[ (١٠) وتاخیر العصر مالم تتغیر الشمس]١٤٤[(١١ وتعجیل المغرب ]١٤٥[ (١٢) وتاخیر العشاء الی ما قبل ثلث اللیل۔
الزوال ص ٧٧ نمبر ٥٤٠) اس سے معلوم ہوا کہ سردی ہو تو نماز جلدی پڑھی جائے۔ایک دوسری حدیث میں ہے سمعت انس بن مالک یقول کان النبی ۖ اذا اشتد البرد بکر بالصلوة وذا اشتد الحر ابرد بالصلوة یعنی الجمعة (الف) (بخاری شریف ، باب اذا اشتد الحر یوم الجمعة ص ١٢٤ کتاب الجمعة نمبر ٩٠٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سردی میں ظہر کی نماز جلدی پڑھے اور گرمیں میں دیر کر کے پڑھے۔
]١٤٣[(١٠)عصر مؤخر کرے جب تک سورج میں زردی نہ آجائے۔
وجہ (١)حدیث میں ہے علی بن شیبان قال قدمنا علی رسول اللہ ۖ الی المدینة فکان یؤخر العصر مادامت الشمس بیضاء بقیة (ب) ( ابو داؤد شریف، باب فی وقت صلوة العصر ص ٦٥ نمبر ٤٠٨)(٢) دوسری حدیث میں ہے سمعت ابا مسعود الانصاری یقول ... ورأیتہ یصلی العصر والشمس مرتفعة بیضاء قبل ان تدخلھا الصفرة (ج) (دار قطنی ، باب ذکر بیان المواقیت و اختلاف الروایات فی ذلک ج اول ص ٢٥٩ نمبر ٩٧٥) ان دونوں احادیث سے معلوم ہوا کہ آفتاب زرد ہونے سے پہلے تک عصر کی نماز مؤخر کرنا مستحب ہے۔تاکہ عصر سے پہلے سنن اور نوافل پڑھ سکے۔ کیونکہ عصر کی نماز کے بعد نوافل نہیں پڑھ سکیںگے۔
]١٤٤[(١١)مغرب کو جلدی پڑھنا (مستحب ہے)
وجہ (١) اوپر کی حدیث میں دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دونوں دن ایک ہی وقت میں مغرب کی نماز پڑھائی اس کا مطلب یہ ہے کہ اول وقت میں مغرب کی ماز پڑھنا مستحب ہے (٢) حدیث میں ہے فقام الیہ ابو ایوب ... وقال اما سمعت رسول اللہ ۖ یقول لا تزال امتی بخیر او قال علی الفطرة مالم یؤخروا المغرب الی ان تشتبک النجوم (د)(ابو داؤد شریف ، باب فی وقت المغرب ص ٦٦ نمبر ٤١٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مغرب کو جلدی پڑھنا خیر کی چیز ہے۔
]١٤٥[(١٢)عشا کو تہائی رات تک مؤخر کرنا مستحب ہے۔
وجہ حدیث میں ہے عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ لو لا ان اشق علی امتی لامرتھم ان یؤخروا العشاء الی ثلث اللیل او نصفہ (ہ) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی تاخیر العشاء الآخرة ص ٤٢ نمبر ١٦٧ ابو داؤد شریف ، باب ما وقت العشاء الآخرة ص
حاشیہ : (الف) حضورۖ جب سخت سردی ہوتی تو جلدی نماز پڑھتے اور جب سخت گرمی ہوتی تو ٹھنڈا کرکے نماز پڑھتے یعنی جمعہ کی نماز(ب) علی ابن شیبان فرماتے ہیں کہ ہم حضورۖ کے پاس مدینہ آئے تو آپۖ عصر کو مؤخر کرتے تھے جب تک سورج سفید ہوتا(ج) ابو مسعود انصاری فرماتے ہیں کہ میں نے حضور کو دیکھا کہ عصر کی نماز پڑھتے ہیں اس حال میں کہ سورج بلند رہتا ہے اور سفید رہتا ہے۔اس میں زردی آنے سے پہلے (د) حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے میری امت ہمیشہ خیر میں رہے گی یا فطرت پر رہے گی جب تک ستارے چمکنے تک مغرب کی نماز کو مؤخر نہ کرے(ہ) آپۖ نے فرمایا میری امت پر مشقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں ان کو عشا کی نماز تہائی رات یا آدھی رات تک مؤخر کرنے کا حکم دیتا۔