یوسف و محمد رحمھما اللہ اذا صار ظل کل شیء مثلہ]١٣٦[ (٣) واول وقت العصر اذا خرج وقت الظھر علی القولین وآخر وقتھا مالم تغرب الشمس۔
شریف،باب ماجاء مواقیت الصلوة عن النبی ۖ ص ٣٨ ابواب الصلوة نمبر ١٤٩ ابوداؤد شریف، باب المواقیت،ص ٦٢، نمبر ٣٩٣) اس حدیث میں تمام نماز کے اوقت بیان کئے گئے ہیں ۔اور ظہر کا آخری وقت ایک مثل بتایا گیا ہے ۔ اور ایک مثل کے بعد عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے ۔ اسی حدیث کی بنا پر صاحبین بھی اس طرف گئے ہیں کہ ایک مثل تک ظہر کا وقت رہتا ہے۔ تا ہم احتیاط اسی میں ہے کہ ایک مثل کے بعد ظہر نہ پڑھے اور دو مثل سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھے لغت فیٔ الزوال : ٹھیک دوپہر کے وقت جب سورج سر پر ہو تو اس وقت جو تھوڑا سا سایہ ہوتا ہے اس کو سایہ اصلی اور فیٔ الزوال کہتے ہیں۔اس کو چھوڑ کر ہر چیز کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو تو وہ ایک مثل سایہ کہلاتا ہے۔ مثلا ایک آدمی کا قد ساڑھے پانچ فٹ ہے۔ تو سایہ اصلی کے علاوہ سایہ ساڑھے پانچ فٹ تک چلا جائے تو ایک مثل ہو گیا۔ اور سایہ اصلی کے علاوہ گیارہ فٹ تک سایہ لمبا ہو گیا تو دو مثل ہو گیا۔
]١٣٦[(٣)عصر کا اول وقت جب کہ ظہر کا وقت نکل جائے دونوں قول پر۔اور اس کا آخری وقت جب تک سورج غروب نہ ہو جائے۔
تشریح صاحبین کے قول کے مطابق مثل اول کے بعد عصر کا وقت شروع ہوگا۔اور امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق دو مثل کے بعد عصر کا وقت شروع ہوگا۔ اور بعض ائمہ نے دونوں حدیثوں کو دیکھتے ہوئے فرمایا کہ ایک مثل کے بعد اور دو مثل سے پہلے وقت مہمل ہے یعنی نہ ظہر کا وقت ہے اور نہ عصر کا وقت ہے۔
نوٹ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ظہر کے بعد فورا عصر کا وقت شروع ہوتا ہے نہ دونوں کے درمیان وقت مہمل ہے اور نہ مشترک ہے۔ پہلی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عصر کی آخری نماز دو مثل پر پڑھی گئی لیکن دوسری حدیث میں موجود ہے کہ غروب آفتاب تک عصر کا وقت موجود ہے ۔ البتہ آفتاب زرد ہونے کے بعد نماز مکروہ ہونے لگتی ہے۔ اس لئے آفتاب زرد ہونے سے پہلے عصر کی نماز پڑھنی چاہئے۔تاہم غروب سے پہلے عصر کی نماز پڑھیگا تو ادا ہوگی قضا نہیں ہوگی۔کیونکہ ابھی وقت باقی ہے۔ غروب آفتاب سے پہلے تک عصر کے وقت ہونے کی دلیل ۔
وجہ (١) وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا (آیت ١٣٠ سورۂ طہ ٢٠) غروب سے پہلے نماز پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز عصر کا وقت سورج غروب ہونے سے پہلے تک ہے (٢) حدیث میں ہے عن ابی ھریرة ان النبی ۖ قال من ادرک من الصبح رکعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرک الصبح و من ادرک من العصر رکعة قبل ان تطلع الشمس فقدادرک العصر (الف) (ترمذی شریف، باب ماجاء فیمن ادرک رکعة من العصر قبل ان تغرب الشمس ص ٤٥ نمبر ١٨٦ بخاری شریف ، باب من ادرک من الفجر رکعة ص
حاشیہ : (پچھلے صفحہ سے آگے)پھر عشا آخرہ کی نماز پڑھائی جب کہ تہائی رات چلی گئی ۔پھر صبح کی نماز پڑھائی جس وقت زمین میں اسفار ہو گیا۔ پھر میری طرف جبرئیل متوجہ ہوئے اور کہا کہ اے محمد ! یہ آپ سے پہلے انبیا کا وقت ہے۔اور نمازوں کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے(الف) آپۖ نے فرمایا جس نے صبح کی ایک رکعت پائی سورج کے طلوع ہونے سے پہلے گویا کہ اس نے صبح کی نماز پا لی۔ اور جس نے سورج کے غروب ہونے سے پہلے عصر کی ایک رکعت پالی تو گویا کہ عصر کی نماز پالی۔