]١٣١[ (١٣) وغسلہ بالماء افضل]١٣٢[ (١٤) وان تجاوزت النجاسة مخرجھا لم یجز فیہ الا الماء او المائع]١٣٣[(١٥) ولا یستنجی بعظم ولا روث ولا بطعام ولا
]١٣١[(١٣)مقام کو پانی کے ساتھ دھونا افضل ہے۔
وجہ سمعت انس بن مالک یقول کان النبی ۖ اذا خرج لحاجتہ اجیء انا وغلام معنا اداوة من ماہ یعنی یستنجی بہ (الف)(بخاری شریف،باب الاستنجاء بالماء ص ٢٧ نمبر ١٥٠)اوپر کی حدیث اور اس حدیث کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی کے ساتھ استنجا کرنا افضل ہے۔ اس لئے کہ اس سے مکمل صفائی ہو جاتی ہے۔ البیہ پتھر استعمال کرنے سے کفایت کر جائے گی اور نماز جائز ہو جائے گی۔
]١٣٢[(١٤) اگر نجاست مخرج سے زیادہ پھیل جائے تو اس میں جائز نہیں ہے اس میں مگر پانی یا بہنے والی چیز۔
تشریح شیخین کے نزدیک مخرج کے علاوہ ایک درہم کی مقدارسے زیادہ نجاست پھیل جائے اور امام محمد کے نزدیک مخرج کے ساتھ ایک درہم کی مقدار سے زیادہ نجاست پھیل جائے تو پانی سے دھونا ضروری ہے۔ اب پتھر سے صاف کرنا کافی نہیں ہوگا
وجہ (١) مخرج کو مجبوری کے درجہ میں پتھر سے صاف کرنا کافی قرار دیا اس لئے اس سے زیادہ پھیل جائے تو پانی سے دھونا ضروری ہوگا (٢) حضرت علی کے قول سے تائید ہوتی ہے۔ قال علی بن ابی طالب انھم کانوا یبعرون بعرا وانتم تثلطون ثلطا فاتبعوا الحجارة الماء (ب)(سنن للبیھقی،باب الجمع فی الاستنجاء بین المسح بالاحجار والغسل بالماء ،ج اول ،ص ١٧٢،نمبر ٥١٧) اس سے معلوم ہوا کہ پتھر اس وقت کافی ہوگا جب نجاست مخرج تک ہو جیسا کہ صحابہ خشک پا خانہ کرتے تھے تو مخرج تک ہوتا تھا ۔لیکن مخرج سے زیادہ ہو تو پانی استعمال کرنا ہوگا ۔
نوٹ پانی سے بھی استنجا کرنا جائز ہے۔ اور ہر وہ بہنے والی چیز جس سے نجاست زائل ہو جائے اس سے بھی استنجا کرنا جائز ہے۔ امام شافعی کا اختلاف اس بارے میں پہلے گزر چکا ہے۔
]١٣٣[(١٥)نہ استنجا کرے ہڈی سے، نہ لید سے، نہ کھانے سے، نہ دائیں ہاتھ سے ۔
وجہ (١)یہ ہے کہ کوئی ایسی چیز جو خود ناپاک ہو جیسے لید،سوکھا گوبر تو وہ دوسرے کو کیسے پاک کرے گی۔ اس لئے ناپاک چیز سے استنجا کرنا جائز نہیں ہے (٢)ایسی چیز جو چکنی ہو جیسے ہڈی اس سے مقام صاف نہیں ہوگا صرف نجاست مزید پھیل جائے گی اس لئے اس سے بھی استنجا جائز نہیں ہے (٣) ایسی چیز جو محترم ہو جیسے کھانا اور کاغذ تو اس سے بھی استنجا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ احترام کے خلاف ہے۔اسی طرح دایاں ہاتھ محترم ہے اس کو بھی پاخانہ کے لئے استعمال کرنا اچھا نہیں ہے۔اس لئے اس سے بھی استنجا کرنا جائز نہیں ہے ۔
نوٹ ان چیزوں سے استنجا کر لیا اور نجاست صاف ہو گئی تو نماز کے لئے درست ہو جائے گی۔ ان چیزوں سے مکروہ ہونے کی دلیل حضرت
حاشیہ : (الف) حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضورۖ جب قضاء حاجت کے لئے نکلتے تو میں اور میرے ساتھ ایک لڑکا پانی سے بھرے ہوئے برتن کے ساتھ جاتے،یعنی اس سے حضورۖ استنجاء فرماتے (ب) حضرت علی فرماتے ہیں کہ صحابہ مینگنی کی طرح پاخانہ کرتے تھے اور تم لوگ پتلا پا خانہ کرتے ہو اس لئے پتھر کے بعد پانی استعمال کرو ۔