(صاحب ھدایہ کی پیش کردہ آٹھ صورتیں یہ ہیں )
]١[
]٢[
]٣[
]٤[
چاروں رکعتوں میں قرأت چھوڑ دی ہو
شفعہ ثانی میں قرأت چھوڑ دی ہو
شفع اول میں قرأت چھوڑ دی ہو
شفع ثانی کی کسی رکعت میںقرأت چھوڑی ہو
]٥[
]٦[
]٧[
]٨[
شفع اول کی کسی رکعت میں قرأت چھوڑ ی ہو
شفع اول کی کسی ایک رکعت میں اور شفع ثانی کی کسی ایک رکعت میں قرأت چھوڑی ہو
شفع ثانی کی دونوں رکعتوں میں اور شفع اول کی کسی ایک رکعت میں قرأت چھوڑی ہو
شفع اول کی دونوں رکعتوں میں اور شفع ثانی کی کسی ایک رکعت میں قرأت چھوڑی ہو
یہ سب مسائل تین اصولوں پر ہیں ۔
اصول : امام ابوحنیفہ ۔ دونوں رکعتوں میں قرأت چھوڑے گا تو تحریمہ باطل ہو جائے گا ، اور ایک رکعت میں قرأت چھوڑے گا تو تحریمہ باطل نہیں ہو گا ۔
اصول : امام محمد ۔ ایک رکعت میں بھی قرأت چھوڑے گا تو تحریمہ باطل ہو جائے گا ۔
اصول : امام ابو یوسف ۔ چاروں رکعتوں میں بھی قرأت چھوڑے گا تب بھی تحریمہ باطل نہیں ہو گا ۔
( تینوں اصولوں کی وجہ )
امام ابو حنیفہ کے اصول کی وجہ : ۔ امام ابو حنیفہ فر ماتے ہیںکہ ایک رکعت میں بھی قرأت کر لی تو بعض ائمہ کی رائے ہے کہ نقصان کے ساتھ دو نوں رکعتیں ادا ہو گئیں ، اور پورا شفع صحیح ہو گیا ، کیونکہ پہلے آیت سے ثابت کیا گیا ہے کہ حقیقت میں پہلی رکعت میںقرأت فرض ہے اور دوسری میں اسکے تابع کر کے فرض کی گئی ہے ، اسلئے دوسری میں قرأت چھوڑ بھی دی تو شفع صحیح ہو گیا ۔ اسلئے ایک رکعت میں قرأت چھوڑنے کی وجہ سے تحریمہ باطل نہیں ہو گا ، اور جب پہلے شفعے کا تحریمہ باطل نہیں ہوا تو دوسرے شفع کا اس پر بناء کر نا درست ہو گیا ۔
اور اگر دونوں رکعتوں میں قرأت چھوڑ دی تو کسی امام کے نزدیک نماز نہیں ہو ئی اور جب نماز ہی نہیں ہو ئی تو تحریمہ باطل ہو گیا ، اسلئے اب دوسرے شفع کو اس پر بناء کر نا درست نہیں رہا ۔ اس اثر میں ہے ۔ أن عمر صلی المغرب فلم یقرأ ، فأمر المؤذن فأعاد الأذان و الاقامة ، ثم أعاد الصلوة ۔ ( مصنف عبد الرزاق ، باب من نسی القرأة ، ج ثانی ، ص ٨١ ، نمبر ٢٧٥٧) اس اثر میں ہے کہ مغرب کی کسی رکعت میں قرأت نہیں کی تو اس نماز کو دوبار ہ لوٹایا ۔