٤ ولہما ان الشروع ملزم ما شرع فیہ ومالا صحة لہ الابہ وصحة الشفع الاوّل لاتتعلق بالثانی بخلاف الرکعة الثانیة ٥ وعلیٰ ہذا سنة الظہر لانہا نافلة ٦ وقیل یقضی اربعًا احتیاطا لانہا بمنزلة صلوٰة واحدة
ترجمہ: ٤ حضرت امام ابو حنیفہ اور امام محمد کی دلیل یہ ہے کہ جسکو شروع کیا وہی لازم ہو گی ، اور وہ لازم ہو گی جسکے بغیر یہ صحیح نہیں ہو تی ۔ اور شفع اول کا صحیح ہو نا شفع ثانی سے متعلق نہیںہے ، بخلاف رکعت ثانی کے ] کہ پہلی رکعت کا صحیح ہو نا دوسری رکعت پر مو قوف ہے ۔
تشریح : دوسرے شفع کے لازم نہ ہو نے کی یہ دلیل عقلی ہے ۔ طرفین کی دلیل یہ ہے کہ جس رکعت کو شروع کی اسکی قضاء لازم ہو گی ، اور وہ رکعت بھی لازم ہو گی جس کے بغیر یہ رکعت درست نہ ہو تی ہو ۔ مثلا پہلی رکعت شروع کی تو اسکی قضاء لازم ہو گی ، لیکن ایک رکعت پڑھنا صلوة بتیرا ہے جو حدیث میں ممنوع ہے اسلئے دوسری رکعت کے بغیر پہلی رکعت صحیح نہیں ہے ۔ اسلئے پہلی رکعت شروع کی تو دوسری رکعت کی قضاء بھی لازم ہو گی کیونکہ دوسری رکعت کے بغیر پہلی رکعت درست نہیںہے ۔ شفع ثانی کا حال ایسا نہیںہے ۔ کیونکہ شفع ثانی کے بغیر بھی شفع اول جائز ہے ، اسلئے شفعہ اول شروع کیا تو اس سے شفع ثانی کی قضاء لازم نہیں ہو گی ۔
اصول : ]١[ جس رکعت کو شروع کیا اسکی قضاء واجب ہو گی ۔]٢[ اور شروع کی ہوئی رکعت کا صحیح ہو نا جس رکعت پر مو قوف ہو اسکی قضاء بھی لازم ہو گی ۔]٣[ اور جس پر موقوف نہ ہو اسکی قضاء لازم نہیں ہو گی ۔
ترجمہ : ٥ اسی اختلاف پرظہر کی سنت ہے اسلئے کہ وہ بھی نفل ہے ۔
تشریح : ظہر کی سنت ایک ساتھ چار رکعت ہے ، اب کسی نے چار رکعت کی نیت کی اور تیسری رکعت شروع کر نے کے بعد فاسد کر دی تو امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک یہاں بھی پہلی دو رکعت الگ شفع ہے اور دوسری دو رکعت الگ شفعہ ہے اسلئے دوسرے شفعہ کو فاسد کر نے کی وجہ سے صرف دوسرے شفع کی ہی قضاء لازم ہو گی ، پہلے شفع کی قضاء لازم نہیں ہو گی ۔ اور امام ابو یوسف کے نزدیک چاروں رکعتیں ایک ہی نیت کے ساتھ باندھی ہے اسلئے تیسری کو فاسد کر نے کی وجہ سے بھی چاروں رکعتوں کی قضاء لازم ہو گی ۔
ترجمہ: ٦ اور بعض حضرات نے فر مایا کہ احتیاط کے طور پر چار ہی قضاء کرے اسلئے کہ چاروں رکعتیں ایک ہی نماز کے درجے میں ہیں ۔
تشریح : بعض حضرات کی رائے ہے کہ ظہر کی سنت میں چار رکعتوں کی نیت باندھی تو وہ چاروں رکعتیں ایک ہی نماز کے درجے میں ہیں اسلئے تیسری کو فاسد کیا تب بھی مکمل چار ر کعتیں ہی قضاء کرے احتیاط کا تقاضا یہی ہے ۔