١ وقال الشافعی :فی الرکعات کلہا لقولہ علیہ السلام :لا صلوٰة الابقراء ة، وکل رکعة صلوة
٢ وقال مالک: فی ثلث رکعات اقامة للاکثر مقام الکل تیسیر ا
ابراہیم قال :ما قر أ علقمة فی الرکعتین الأخریین حر فا ً قط ۔ (مصنف عبد الرزاق ،باب کیف القراء ة فی الصلوة ج ثانی ص٦٥، نمبر٢٦٦٠مصنف ابن ابی شیبة،١٤٦ من کان یقول یسبح فی الاخریین ولایقرأ،ج اول،ص ٣٢٧، نمبر ٣٧٤٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ دوسری رکعت میں سورت پڑھنا کوئی ضروری نہیں ہے ۔
فائدہ : ترجمہ: ١ اور امام شافعی نے فر مایا کہ تمام ہی رکعتوں میں پڑھنا ضروری ہے ۔ حضور ۖ کے قول کی وجہ سے کہ کوئی نماز بغیر قرأت کے نہیں ہوتی اور اسلئے بھی کہ ہر رکعت نماز ہے ۔
تشریح : امام شافعی کے نزدیک ہر رکعت میں قرأت کر نا فرض ہے ، چاہے فرض نماز ہو یا نفل نماز ہو ۔
وجہ: (١)ان کے نزدیک ہر رکعت مستقل نماز ہے۔اور نماز بغیر قرأت کے نہیں ہوتی اس لئے دوسری دو رکعتوں بھی سورۂ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے(٢) صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔ عن ابی ھریرة أن رسول اللہ ۖ قال (( لا صلوة الا بقرأة ))( مسلم شریف ، باب وجوب قرأة الفاتحة فی کل رکعة،ص ١٦٩ نمبر٨٨٢٣٩٦) اس حدیث میں ہے کہ قرأت کے بغیر نماز ہی نہیں ہو گی ، اور انکے یہاں ہر رکعت نماز ہے اسلئے ہر رکعت میں قرأت فرض ہے ۔ (٣)اسی مسئلہ میں بخاری کی یہ حدیث گزری ۔عن عبد اللہ بن ابی قتادة عن ابیہ ان النبی ۖ کان یقرأ فی الظہر فی الاولیین بام الکتاب و سورتین وفی الرکعتین الاخریین بام الکتاب ویسمعنا الآیة و یطول فی الرکعة الاولی ما لا یطیل فی الرکعة الثانیة وھکذا فی العصر۔ (بخاری شریف ، باب یقرأ فی الاخریین بفاتحة الکتاب ص ١٠٧ نمبر ٧٧٦ مسلم شریف ، باب القراء ة فی الظہر والعصر ص ١٨٥ نمبر ١٠١٢٤٥١) جس میں ہے کہ حضور ۖدوسری دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب ہے(٤) عن عبادة بن صامت : أن رسول اللہ ۖ قال : (( لاصلوة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب (بخاری شریف ، باب وجوب القرأة للامام و الماموم فی الصلوات کلھا ، ص ١٠٤ نمبر ٧٥٦ مسلم شریف ، باب وجوب قرأة الفاتحة فی کل رکعة،ص ١٦٩ نمبر ٣٩٤ ٨٧٤) اس حدیث کی وجہ سے بھی فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔
ترجمہ: ٢ اور امام مالک نے فر مایا کہ تین رکعتوں میں کافی ہے ، آسانی کے لئے اکثر کو کل کے قائم مقام کر تے ہوئے ۔
تشریح : حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ چار رکعت والی نماز میں تین رکعتوں میں قرأت کر لے تب بھی کافی ہو جائے گی۔
وجہ : (١)اسکی وجہ وہ یہ فر ماتے ہیں کہ اکثر میں قرأت کر لی تو یہ کل کے حکم میں ہو گیا ، اسلئے یہ کافی ہو گیا ۔ (٢)اثر میں اسکا ثبوت