(۹۰۵) وان اخروہا عن یوم الفطر لم تسقط وکان علیہم اخراجہا} ۱؎ لان وجہ القربۃ فیہا معقول فلا یتقدر وقت الاداء فیہا بخلاف الاضحیۃ ۔ واﷲ اعلم۔
تشریح :مستحب یہ ہے کہ عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے فطرہ نکال کر فقراء میں تقسیم کر دے تاکہ فقراء بھی کھا کر اور سیر ہو کر عید پڑھنے جائے او ر ایسا نہ ہو کہ اس کو نماز سے پہلے فطرہ نہ ملے تو وہ فطرہ مانگنے میں رہ جائے اور نماز عید میں شریک نہ ہو سکے ، اس لئے پہلے دینا مستحب ہے ، اور اگر رمضان کے شروع میں دے دیا تب بھی جائزہے کیونکہفطرہ واجب ہو نے کے لئے رمضان جو سبب ہے وہ پا یا گیا تو فطرہ ادا ہو جائے گا ، اور اگر کسی نے عید کے دن کے بعد دیا تب بھی فطرہ ادا ہو جائے گا ، کیونکہ گو یا کہ اس نے قرض ادا کیا ،البتہ استحباب کے خلاف کیا
وجہ: (۱) صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے ۔عن ابن عمر ان النبی ﷺ امر بزکوۃ الفطر قبل خروج الناس الی الصلوۃ۔ (بخاری شریف ، باب الصدقۃ قبل العید ص ۲۰۴ نمبر ۱۵۰۹؍ مسلم شریف ، باب باب الامر باخراج زکاۃ الفطر قبل الصلوۃ، ص ۳۹۷، نمبر ۹۸۶؍ ۲۲۸۸)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عید گاہ کی طرف نکلنے سے پہلے عید کے دن صدقۃ الفطر نکالے۔
ترجمہ: ۲؎ اور اس لئے کہ مستغنی کر نے کا حکم اس لئے ہے کہ تاکہ ایسا نہ ہو کہ فقیر سوال کر نے میں رہ جا ئے اور نماز چھوٹ جائے ، اور یہ اسی وقت ہو گا جب عید کی نماز سے پہلے فطرہ ادا کرے ۔
تشریح : فطرہ دینے کا اصل مقصد یہ ہے کہ غریب اورمسکین کھا کر اور سیر ہو کر عید کی نما ز میں آئیں ، تاکہ ایسا نہ ہو کہ فطرہ مانگنے میں رہ جائے اورعید کی نماز میں شریک نہ ہو سکے ، اور یہ مقصد اسی وقت پورا ہو گا جبکہ نماز سے پہلے ہی فطرہ غرباء میں تقسیم کر دیا جائے۔
ترجمہ: (۹۰۴) اور اگر فطرہ کو عید کے دن سے پہلے دے دیا تب بھی جائز ہے ۔
وجہ : (۱)اس سے بھی پہلے نکالے تو جائز ہے کیونکہ صدقۃ الفطر کا سبب اصلی مالداری ہے اور ولایت اور مؤنت ہے اور وہ سب موجود ہیں صبح صادق تو ادا کا وقت ہے ، جیسے زکوۃ کا اصلی سبب نصاب کا مالک ہو نا ہے ، اور سال پورا ہو نا ادا کا سبب ہے ،اس لئے اگر صبح صادق سے پہلے ادا کردیا تو ادائیگی ہو جائے گی۔جیسے زکوۃ جلدی دے تو ادا ہو جاتی ہے۔(۲) اثر میں ہے ۔ و کان ابن عمر ؓ یعطیھا للذین یقبلونھا و کا نوا یعطون قبل الفطر بیوم او یومین ۔ ( بخاری شریف ، باب صدقۃ الفطر علی الحر و المملوک ، ص ۲۴۶، نمبر ۱۵۱۱؍ابو داؤد شریف ، باب متی تودی ص ۲۳۴ نمبر ۱۶۱۰) اس اثر میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر صدقۃ الفطر عید کے ایک دن یا دو دن قبل ہی نکال دیتے تھے۔ جس سے معلوم ہوا کہ سبب تو عید الفطر کے صبح صادق کا وقت ہے لیکن اگر دو چار روز قبل ہی نکال دے تو ادائیگی ہو جائے گی۔
ترجمہ: ۱؎ اس لئے کہ سبب کے ثابت ہو نے کے بعد ادا کیا تو ایسا ہوا کہ زکوۃ میں جلدی کی ، اور کچھ مدت کی تفصیل نہیں ہے ، صحیح یہی ہے ۔
تشریح : یہ دلیل عقلی ہے کہ سبب کے ثابت ہو نے کے بعد ادا کیا ، فطرے کا سبب مالدار ہو نا ، اور ولایت اور مؤنت ہو نا ہے ، اور وہ مو جود ہیں ، اس لئے فطرہ دے دیا تو فطرہ ادا ہو جائے گا ، جیسے زکوۃ کا اصلی سبب نصاب کا مالک ہو نا ہے ، اور سال پورا ہو نا زکوۃ کے ادا کا سبب ہے ، اسی لئے نصاب کے مالک ہو نے کے بعد سال گزر نے سے پہلے زکوۃ دے دی تو زکوۃ ادا ہو جائے گی ، اسی طرح صبح صادق سے پہلے فطرہ دے دیا تو فطرہ ادا ہو جائے گا ۔ ۔ پھر اثر میں ایک دن اور دو دن پہلے کہا ہے اس لئے کوئی خاص مدت متعین نہیں ہے اس لئے رمضان کے شروع میں بھی دے سکتے ہیں اور رمضان سے پہلے بھی دے سکتے ہیں ۔ صحیح بات یہی ہے ۔
ترجمہ: (۹۰۵) اور اگر صدقۃ الفطر کو عید الفطر کے دن سے مؤخر کیا تو وہ ساقط نہیں ہوگا اور ان پر اس کا نکالنا ضروری ہوگا۔
تشریح: اگر عید الفطر کے دن تک صدقۃ الفطر نہیں نکالا تو واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوگا۔ جیسے نماز واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتی ہے۔ اور بعد میں بھی اس کا نکالنا واجب ہوگا۔اور چونکہ ایک صاع یا آدھا صاع گیہوں ہی دینا پڑے گا اس لئے بوجھ بھی کوئی زیادہ نہیں ہے۔
ترجمہ: ۱؎ اس لئے کہ قربت کی وجہ اس میں سمجھ میں آتی ہے اس لئے اس کا ادا کر نا کسی وقت کے ساتھ متعین نہیں ہو گا ۔ بخلاف قربانی کے ۔
تشریح : قربانی میں جانور کو ذبح کر نا اور مارنا ہے ، اس لئے عبادت سمجھ میں نہیں آتی ہے اس لئے اس کو وقت کے ساتھ متعین کیا کہ قربانی کا وقت ہو اور اس میں قربانی کی تو قربانی ہو جائے گی اور قربانی کا وقت گزر گیا تو اب قربانی نہیں ہو گی ۔ لیکن فطرہ عبادت ما لیہ ہے ، یہ کسی غریب کو دینا اور اس کی مدد کر نا سمجھ میں آتا ہے اس لئے یہ کسی وقت کے ساتھ متعین نہیں ہے ، اس لئے وقت کے بعد دے گا تب بھی ادا ہو جائے گا ، جیسے زکوۃ سال کے بعد دے گا تب بھی ادا ہو جائے گی ۔
اصول : صدقۃ الفطر وقت کے ساتھ متعین نہیں ہے ۔ و اللہ اعلم ۔