٣ ولنا ما روی انہ علیہ السّلام کان یتوضأ بالمدد طلین ویغسل بالصاع ثمانیة ارطال وہٰکذا کان صاع عمر
ابو یوسف کی دلیل ہے ۔ حدثی ابی عن امہ انھا ادت بھذا الصاع الی رسول اللہ قال مالک انا حزرت ھذہ فوجدتھا خمسة ارطال و ثلث (دار قطنی ، کتاب زکوة الفطرص ١٣٢ نمبر٢١٠٥ سنن للبیھقی،باب مادل علی ان صاع النبی ۖ کان عیارہ خمسة ارطال و ثلث،ص ٢٨٧، نمبر ٧٧٢٢ )اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورۖ کا صاع پانچ رطل اور ایک تہائی رطل کا تھا۔ اسی پر جمہور ائمہ کا عمل ہے۔ (٣)انکی دلیل یہ اثر بھی ہے ۔ قال قدمنا علینا أبو یوسف من الحج فأتیناہ ، فقال : انی أرید أن افتح علیکم با با من العلم ھمنی تفحصت عنہ فقدمت المدینة فسألت عن الصاع فقالوا صاعنا ھذا صاع رسول اللہ ۖ قلت لھم : ما حجتکم فی ذالک ؟ فقالوا : نأتیک بالحجة غدا ، فلما أصبحت أتانی نحو من خمسین شیخا من ابناء المھاجرین و ألانصار مع کل رجل منھم الصاع تحت ردائہ کل رجل منھم یخبر عن أبیہ أو أھل بیتہ أن ھذا صاع رسول اللہ ۖ فنظرت فاذا ھی سواء قال : فعایرتہ فاذا ھو خمسة أرطال و ثلث بنقصان معہ یسیر فرأیت امرا قویا فقد ترکت قول ابی حنیفة فی الصاع و أخذت بقول أھل المدینة ۔ ( سنن بیہقی ، باب ما دل علی أن صاع النبی ۖ کان عیارہ خمسة أرطال و ثلث ، ج رابع ، ص ٢٨٦، نمبر ٧٧٢١) اس اثر میں ہے کہ حضور ۖ کا صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا تھا ۔
ترجمہ: ٣ اور ہماری دلیل وہ جو روایت کی کہ حضور علیہ السلام ایک مد سے وضو فر ما تے جو دو رطل ہو تا تھا ، اور ایک صاع سے غسل فر ما تے تھے جو آٹھ رطل کا ہو تا تھا ۔ اور حضرت عمر کا صاع بھی ایسے ہی تھا ۔
وجہ : (١) آٹھ رطل کا صاع ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے جو صا حب ھدایہ نے پیش کی ۔عن انس بن مالک ان النبی ۖ کان یتوضأ برطلین ویغتسل بالصاع ثمانیة ارطال (دار قطنی ، کتاب زکوة الفطر ج ثانی ص ١٣٤ نمبر ٢١٢٠٢١١٩ سنن للبیھقی ، باب ما دل علی ان صاع النبی کان عیارة خمسة ارطال و ثلث ج رابع ص٢٨٧،نمبر٧٧٢٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صاع آٹھ رطل کا ہونا چاہئے ۔(٢) حضرت عمر کا اثر یہ ہے جو صاحب ھدایہ نے پیش کیا ہے ۔سمعت حنشا یقول : صاع عمر ثمانیة أرطال و قال شریک أکثر من سبعة أرطال و أقل من ثمانیة ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ١١٥ فی الصاع ما ھو ،ج ثانی ، ص ٤٢٢،نمبر ١٠٦٤٣) اس اثر میں ہے کہ آٹھ رطل کا صاع ہو تا ہے۔