٨ والمختار فی القنوت الاخفاء لانہ دعائ.
تشریح : امام شافعی تھے اور مقتدی حنفی تھا ، شافعی امام نے اپنے مذھب کے مطابق عمل کیا لیکن ایسا عمل کیا جس سے حنفی مذھب کے مطابق وضو ٹوٹ جا تا تھا ،مثلا امام صاحب نے وضو کر نے کے بعد فصد لگوایا اور اس سے خون نکلا اب امام شافعی کے مسلک کے مطابق وضو نہیں ٹوٹا اور امام ابوحنیفہ کے مسلک کے مطابق وضو ٹوٹ گیا اب اس حال میںامام نے نماز پڑھا دی تو چونکہ امام ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق وضو ٹوٹ گیا ہے اسلئے حنفی مقتدی کو انکی اقتداء میں نماز نہیں پڑھنی چاہئے ، کیونکہ مقتدی کے مذھب کے مطابق جب وضو ٹوٹ گیا ہے تو مقتدی کی نماز ہو گی ہی نہیں ۔ ہاں اگر ان تمام باتوں کی رعایت کر تے ہوئے نماز پڑھاتے جس سے حنفی کے وضو میں خلل واقع نہیں ہو تا تو حنفی مقتدی کا اقتداء کر نا درست ہو تا ۔
اصول : ]١[ حنفی مقتدی شافعی ، مالکی ، حنبلی کی اقتداء کر سکتا ہے بشرطیکہ فساد وضو یا فساد نماز کا ارتکاب اس وقت نہ کر رہا ہو ۔
ترجمہ: ٨ اور قنوت میں مختار مذھب اخفاء پڑھنا ہے اسلئے کہ وہ دعاء ہے ۔
تشریح : وتر میں دعاء قنوت آہستہ پڑھے ، اسکی وجہ یہ ہے کہ قنوت دعاء ہے اور دعاء کے بارے میں قرآنی ھدایت یہ ہے کہ آہستہ پڑھے اسلئے وتر میں دعاء قنوت آہستہ پڑھنا بہتر ہے ۔ آیت یہ ہے ۔ ادعوا ربکم تضرعا و خفیة انہ لا یحب المعتدین ۔ ( آیت ٥٥، سورة الاعراف ٧) اس آیت میں ہے کہ اللہ کو آہستہ اور گڑگڑا کر پکارو ، اسلئے دعاء قنوت بھی آہستہ پڑھنا چاہئے ۔
البتہ فجر میں جو قنوت نازلہ پڑھتے ہیں اسکو حنفیہ کے یہاں بھی زور سے پڑھتے ہیں اور مقتدی اس پر آمین کہتے ہیں ۔
وجہ : اس حدیث میں اسکا ثبوت ہے ۔ عن ابن عباس قال قنت رسول اللہ ۖ شھرا متتابعا فی الظھرو العصر و المغرب و العشاء و صلوة الصبح فی دبر کل صلوة اذا قال : (( سمع اللہ لمن حمد )) من الرکعة الآخرة یدعو علی أحیاء من بنی سلیم علی رعل و ذکوان و عصیة و یومّن من خلفہ ۔ ( ابوداود شریف ،باب القنوت فی الصلوة ، ص ٢١٥ نمبر ١٤٤٣) اس حدیث میں ہے کہ مقتدی قنوت نازلہ پر آمین کہتے تھے ، اسکا مطلب یہ ہوا کہ حضور ۖ زور سے قنوت نازلہ پڑھتے تھے اسی لئے تو صحابہ اس پر آمین کہتے تھے ۔