١ انا یعنی الی الفقراء فی المصر لان الاداء کان مفوضًا الیہ فیہ وولایة الاخذ بالمرور لدخولہ تحت الحمایة۔ ٢ وکذا الجواب فی صدقة السوائم فی ثلثة فصول
یہ ظاہر ہو گیا کہ یقنی طور پر یہ جھوٹ بول رہا ہے اس لئے اب اسکی بات نہیں مانی جائے گی ، اور زکوة لی جائے گی ۔
اصول : ۔ سچ بولنے کا قرینہ مو جود ہو تو قسم کے ساتھ بات مانی جائے گی ۔ اور اگر سچ بولنے کاقرینہ نہ ہو تو بات نہیں مانی جائے گی۔
ترجمہ: (٨١١) ایسے ہی اگر کہا کہ میں نے اپنے سے زکوة ادا کی ہے ۔
ترجمہ: ١ یعنی میں نے شہر میں فقیر کو ادا کیا ہے اس لئے کہ زکوة کی ادائیگی مالک کے سپرد تھا ، اور عاشر کو لینے کا حق اس کے سامنے سے گزرنے کی وجہ سے ہے اس لئے کہ اس کی حفاظت میں داخل ہو گیا ۔
تشریح : یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ تجارت کا مال جب تک شہر کے اندر ہے اس وقت تک اسکی حفاظت کی ذمہ داری مالک کی ہے اور بادشاہ کی حفاظت میں ابھی تک داخل نہیں ہوا ہے ، یہ اموال باطنہ کے درجے میں ہے ، اس لئے چاہے تو اسکی زکوة خود شہر کے فقراء کو تقسیم کر دے اور جی چاہے تو بادشاہ کے عاشر کو دے ۔ ہاں جب شہر سے باہر لے جائے گا تو اسکی حفاظت بادشاہ کے ذمے ہے ، اور یہ اموال ظاہرہ ہو جائے گا ، اور اس کی زکوة بادشاہ کا عاشر ہی وصول کرے ۔۔اس اصول پر مسئلے کی تشریح یہ ہے کہ عاشر کے سامنے سے گزرتے وقت تاجر نے یہ کہا کہ میں نے اس کی زکوة شہر کے اندر فقراء پر خود تقسیم کر دیا ہے ، اور اس پر قسم کھا یا ، تو اسکی بات مان لی جائے گی اور اس سے دو بارہ زکوة نہیں لی جائے گی ، اسکی وجہ یہ ہے کہ شہر کے اندر رہتے ہوئے تجارت کا مال اموال باطنہ تھا اور خود مالک کو اسکی زکوة فقراء پر تقسیم کر دینے کا حق تھا ، اس لئے اس نے زکوة تقسیم کر دی تو وہ صحیح ہو گئی ۔ اور عاشر کی حفاظت میں تو یہ مال بعد میں آیا ہے ، جب عاشر کے سامنے سے گزر رہا ہے اس وقت آیا ہے ، اور زکوة اس سے پہلے ادا کر چکا ہے ، اس لئے اسکی بات قسم کے ساتھ مانی جائے گی ۔
وجہ : (١) اثر میں ہے۔ عن الحسن قال : ان دفعھا الیھم أجزی عنہ و ان قسمھا أجزی عنہ ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ٤٩، من رخص فی ان لا تدفع الزکوة الی السلطان ، ج ثانی ، ص ٣٨٦، نمبر ١٠٢١١) اس اثر میں ہے کہ زکوة کا مال خود بھی فقراء میں تقسیم کر سکتا ہے۔
ترجمہ: ٢ یہی جواب ہے چرنے والے جانور میںتینوں سورتوں میں ۔
تشریح : چرنے والے جانور جنگل میں چرتے ہیں اس لئے اسکی حفاظت بادشاہ کر تا ہے اس لئے وہ اموال ظاہرہ ہیں ۔ اس جانور کو لیکر عاشر کے سامنے سے گزرا اور یہ کہا کہ ]١[ اس پر سال نہیں گزرا ہے ، ]٢[ یا مجھ پر قرض ہے ]٣[ یا میں دوسرے عاشر کو اس کی زکوة ادا کر چکا ہوں ، اور اس سال دوسرا عاشر مو جود تھا تو ان تینوں صورتوں میں قسم کے ساتھ اس کی بات مانی جائے اور اس سے