(٨٠٢) ولیس فیما دون اربعة مثاقیل صدقة ) ١ عند ابی حنیفة وعندہما تجب بحساب ذلک وہی مسألة الکسور۔ ٢ وکل دینار عشرة دراہم فی الشرع فیکون اربعة مثاقیل فی ہٰذا کاربعین درہما
تشریح : عرب میں قیراط چلتا تھا اس اعتبار سے ایک مثقال ، یا ایک دینار کا وزن بیس ٢٠قیراط ہو تا ہے، تو چار مثقال کا وزن اسی ٨٠ قیراط ہوا ، اور چالیسواں حصہ یعنی چالیس قیراط میں ایک قیراط زکوة واجب ہے ، اس اعتبار سے اسی ٨٠ قیراط میں دو قیراط زکوة واجب ہو گی۔ یہی بات مصنف نے کہی ہے ۔
ترجمہ: (٨٠٢) اور چار مثقال سے کم میں زکوة نہیں ہے۔
ترجمہ: ١ امام ابو حنیفہ کے نزدیک،اور صاحبین کے نزدیک اس کی زکوة اس کے حساب سے ہے۔اور یہ مسئلہ کسر کا ہے ۔
تشریح : مسئلہ نمبر ٧٩٨ میں گزر چکا ہے کہ دو سو درہم کے بعد جب تک چالیس درہم نہ ہو جائے اس سے پہلے امام ابو حنیفہ کے یہاں کچھ نہیں ہے ، اور صاحبین کے یہاں دو سو درہم کے بعد ہر درہم میں چالیسواں حصہ زکوة ہے ، یعنی کسر میں زکوة ہے ۔ اسی طرح سونے کی زکوة میں بھی یہ اختلاف ہے ۔ کہ بیس دینار ، یا بیس ٢٠ مثقال سونے کے بعد ہر دینار میں صاحبین کے یہاں چالیسواں حصہ زکوة واجب ہو گی ، اور امام ابو حنیفہ کے یہاں جب تک چار دینار ، یاچار مثقال سونا زیادہ نہ ہو جائے تب تک مزید کوئی زکوة نہیں ہو گی۔ جب چار مثقال ہو جائے تو اس میں دو قیراط زکوة ہو گی ،یعنی چوبیس مثقال سو نا ہو تو آدھا مثقال اور دو قیراط سونا زکوة واجب ہو گی ۔ شریعت میں ایک دینار ، ایک مثقال سو نا کو دس درہم کے برابر قیمت مانتے ہیں اس حساب سے دو قیراط سو نے کی قیمت ایک درہم ہو گی ، اس لئے دو قیراط کے بدلے ایک درہم دے دے تب بھی صحیح ہے ۔
وجہ : (١) مسئلہ نمبر ٧٩٨میں دو نوں کے دلائل گزر چکے ہیں مزید اثر یہ ہے (٢) قال عطاء : لا یکون فی مال صدقة حتی یبلغ عشرین دینار ا فاذا بلغت عشرین دینار ففیھا دینار و فی کل أربعة دنانیر یزیدھا من المال درھم حتی تبلغ أربعین دینارا و فی کل أربعین دینار ا دینار و فی کل أربعة و عشرین دینار ا نصف دینار و درھم ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب ٧، ما قالوا فی الدنانیر ما یؤخذ منھا فی الزکوة ، ج ثانی ، ص ٣٥٨، نمبر ٩٨٨٣) اس اثر میں ہے کہ ہر چار دینار میں ایک درہم ہے ۔
ترجمہ: ٢ ایک دینار شریعت میں دس درہم ہے ، اس لئے چار مثقال سونے میںچالیس درہم کی طرح ہو نگے ۔
تشریح : شریعت میں ایک دینار کی قیمت دس درہم مقرر ہے ، اس اعتبار سے چار دینار کی قیمت چالیس درہم ہو ئے ۔ اور پہلے گزر چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے یہاں دو سو درہم پر جب تک چالیس درہم کا اضافہ نہ ہو جائے مزید کوئی زکوة نہیں ہے ، اسی حساب