١ ہٰکذا ورد البیان فی کتاب رسول ا ﷲ علیہ السلام وفی کتاب ابی بکر وعلیہ انعقد الاجماع۔
(٧٧٨) والضّان والمَعْزُ سوائ) ١ لان لفظة الغنم شاملة للکل والنص ورد بہ ٢ ویو خذ الثنی فی زکاتہا ولا یوخذ الجذع من الضأن الا فی روایة الحسن عن ابی حنیفة۔
ترجمہ: ١ حضور ۖ کے خط میں اور حضرت ابو بکر کے خط میں اسی طرح بیان وارد ہوا ہے ۔ اور اس پر اجماع بھی منعقد ہوا ہے ۔
تشریح : حضور ۖ کی تصدیق کے ساتھ حضرت ابو بکر کا خط ابھی اوپر گزرا۔ اور اس حساب پر تمام ائمہ کا اجماع بھی منعقد ہوا ہے ۔
ترجمہ: (٧٧٨)بھیڑ اور بکری کا مسئلہ برابر ہے۔
ترجمہ: ١ اس لئے کہ لفظ غنم کل کو شامل ہے اور حدیث میں غنم پرزکوة کا تذکرہ ہے
تشریح : بھیڑ اور بکری دو نوں زکوة میں ایک ہی جنس شمار ہو تے ہیں ، چنانچہ اگر بیس بھیڑ اور بیس بکری ہو تو دو نوں کو ملا کر چالیس پر ایک بکری زکوة ہو گی ، کیونکہ دو نوں ایک ہی جنس شمار ہو تے ہیں ۔
وجہ : (١)بھیڑ اور بکری تقریبا ایک جنس شمار کئے جاتے ہیں اس لئے دونوں کی زکوة کا حساب ایک ہی جیسا ہے۔(٢) اوپر حدیث گزری جس میں تھا کہ چالیس غنم میںایک بکری ہے اور غنم کا لفظ بکری پر بھی بولا جا تا ہے اور بھیڑ پر بھی بولا جا تا ہے ، اس لئے دونوں ایک جنس کے ہو نگے ۔حدیث کا ٹکڑا یہ ہے ان انسا حدثہ ان ابا بکر کتب لہ ھذا الکتاب ... وفی صدقة الغنم فی سائمتھا اذا کانت اربعین الی عشرین و مائة: شاة، (بخاری شریف ،نمبر ١٤٥٤ ابو داؤد شریف نمبر ١٥٦٧) اس حدیث میں غنم پر صدقہ ہے جو بھیڑ اور بکری دو نوں کو شامل ہے اسلئے دو نوں کی زکوة ایک ہو گی ۔
لغت الضأن : بھیڑ، المعز : بکری۔ الغنم : بکری ، اور کبھی بھیڑ کو بھی غنم کہہ دیتے ہیں ۔
( بکریوں کی زکوة ایک نظر میں )
بکریاں
زکوة
40
ایک بکری
121
دو بکریاں
201
تین بکریاں
400
چار بکریاں
500
پانچ بکریاں
ترجمہ : ٢ اور بکری کی زکوة میںثنی لیا جا ئے گا ، اور بھیڑ کا جذع نہیں لیا جا ئے گا، مگر امام ابو حنیفہ سے حسن بن زیاد کی روایت