١ عند ابی حنیفة ففی الواحدة الزائدة ربع عشر مسنة وفی الاثنین نصف فعشر مسنة وفی الثلٰثة ثلثة ارباع عشر مسنة وہذا روایة الاصل لان العفو ثبت نصبًا بخلاف القیاس ولا نص ہنا ٢ وروی الحسن عنہ انہ لا یجب فی الزیادة شیٔ حتی تبلغ خمسین ثم فیہا مسنة وربع مسنة او ثلث تبیع لان مبنی ہٰذا النصاب علی ان یکون بین کل عقدین وقص وفی کل عقد واجب
ترجمہ: ١ ابو حنیفہ کے نزدیک پس ایک گائے میں مسنہ کا ایک چالیسواں حصہ اور دو گائے میں مسنہ کا دو چالیسواں حصہ اور تین گائے میں تین چالیسواں حصہ۔یہ مبسوط کی روایت ہے ،اس لئے معاف ہو نا نص سے خلاف قیاس ثابت ہوا ہے اور یہاں کوئی نص نہیں ہے ۔
تشریح: چالیس سے اوپر ساٹھ تک نہ دوسری تیس گائے بنتی ہے اور نہ چالیس گائے بنتی ہے، ساٹھ میں جا کر دو تیس بنتی ہے اس لئے چالیس سے لیکر ساٹھ تک میں امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ ہر گائے میں ایک مسنہ کا چالیسواں حصہ لازم ہوگا۔ اب جتنی گائے ہوتی جائے ہر گائے میں مسنہ کا چالیسواں حصہ لازم ہوتا جائے گا۔چنانچہ ایک گائے میں ایک چالیسواں حصہ اور دو گائے میں دو چالیسواں حصہ اور تین گائے میں تین چالیسواں حصہ لازم ہونگے۔
وجہ: (١) اسکی ایک وجہ یہ فر ماتے ہیں کہ مال ہونا زکوة کا سبب ہے اور جہاں مال ہے پھر بھی شریعت نے زکوة کو معاف کیا ہے تو یہ قیاس کے خلاف معاف کیا ہے ، کیونکہ قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ مال ہو تو زکوة ضرور واجب ہو نی چاہئے ، اور چالیس سے ساٹھ تک گائے میں شریعت نے معافی کے بارے میں کچھ کہا نہیں ہے ، اس لئے قیاس اور رائے سے اس کو معاف نہیں کر سکتے بلکہ قیاس کا تقاضا تو یہی ہے کہ اس میں بھی زکوة واجب ہو ، اس لئے چالیس سے اوپر ہر گائے میں مسنہ کا چالیسواں حصہ لاز م ہو گا ۔ (٢) چنانچہ اثر میں ہے عن مکحول قال مازاد فبالحساب ( مصنف ابن ابی شیبة ١٥ فی الزیادة فی الفریضة ج ثانی، ص ٣٦٤،نمبر٩٩٤٧) اس اثر سے معلوم ہوا کہ چالیس گائے سے جو زیادہ ہو اس کو اس کے حساب سے کیا جائے گا ۔
لغت: ربع عشر مسنة : دسویں حصہ کی چوتھائی یعنی چالیسواں حصہ، نصف عشر : دسویں حصہ کا آدھا یعنی بیسواں حصہ ،جس کو میں نے دو چالیسواں حصہ کہا،دو چالیسواں حصہ ملا کر بیسواں حصہ بن جاتا ہے۔ ثلثة ارباع : تین چالیسواں حصہ۔
ترجمہ: ٢ اورحضرت حسن بن زیاد نے حضرت امام ابو حنیفہ سے روایت کی ہے کہ زیادتی میں کچھ واجب نہیں ہو گا یہاں تک کہ پچاس کو پہنچ جائے ، پھر پچاس میں ایک مسنہ اور مسنہ کا چوتھائی حصہ ۔ یا ایک مسنہ اور تبیعہ کی تہائی ہے ۔ اس لئے کہ اس نصاب کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ہر دو عقد]یعنی دسویں [ کے درمیان وقص ہے ، اور ہر دسویں میں زکوة واجب ہے ۔
تشریح : اس عبارت میں عقد کا مطلب ہے دہائی ، جیسے تیس ، چالیس ، پچاس ، ساٹھ ، ستر ، یہ دہائی ہیں ۔ اور انکے درمیان جو نو کا