١ بذلک جری التوارث ثم فیہ تحسینہ فیستحسن.
دیکھنے والے کو ڈر لگتا ہے اسلئے کسی کپڑے سے جبڑے کو سر کے ساتھ باندھ دیا جا ئے تاکہ میت کا منہ بند ہو جا ئے ، اور ہو سکے تو سر کے نیچے تکیہ رکھ دیا جا ئے تاکہ منہ بند ہی رہے ۔ ۔ اور انتقال کے وقت آنکھیں کھلی رہتی ہیں جس سے آدمی کو ڈر لگتا ہے ۔ حدیث میں ہے کہ روح جب نکلتی ہے تو آنکھیں اسکو دیکھتی رہتی ہیں اور اسی حال میں آنکھیں کھلی رہ جا تی ہیں ، اس لئے آنکھ کو بھی بند کر دیا جائے۔
وجہ: (١)انتقال کے وقت منہ کھلا رہ جاتا ہے جس کی وجہ سے دیکھنے والوں کو کراہیت ہوتی ہے اس لئے ڈاڑھی کو سر کے ساتھ لگا کر باندھ دیا جائے گا تو منہ کھلا ہوا نہیں رہے گا اور بد نما معلوم نہیں ہوگا اس لئے ڈاڑھی باندھ دی جائے گی۔ اسی طرح موت کے وقت آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں جو بدنما معلوم ہوتی ہیںاس لئے آنکھیں بھی فورا بند کردی جائیں(٢)۔ حدیث میں ہے۔ عن ام سلمة قالت دخل رسول اللہ علی ابی سلمة وقد شق بصرہ فاغمضہ ثم قال ان الروح اذا قبض تبعہ البصر ۔ (مسلم شریف ، فصل فی القول الخیر عند المحتضر ص ٣٠٠ کتاب الجنائز نمبر ،٢١٣٠٩٢٠ ابو داود شریف ، باب تغمیض ا لمیت ، ص ٤٥٨، نمبر ٣١١٨)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موت کے وقت میت کی آنکھیں بند کر دینی چاہئے۔
ترجمہ: ١ حضور ۖ کے زمانے سے وراثت کے طور پر ایساہی آرہا ہے ۔ پھر یہ کہ اس صورت میں میت کی تزئین ہے، اس لئے ایسا کر نا مندوب ہو گا۔
تشریح : حضور ۖ کے زمانے سے ایسا ہی آرہا ہے ، اور توارث ایسا ہی چل رہا ہے ،کہ موت کے بعد میت کی داڑھی باندھ دی جا تی ہے ، اور اسکی آنکھیں بند کر دی جاتی ہیں ۔ اور اس صورت میں مردے کی زینت ہے اور تحسین ہے اسلئے بھی ایسا کر نا بہتر ہو گا ۔حدیث اوپر گزری ۔