٢ والمختار فی بلادنا الاستلقاء لانہ ایسر لخروج الروح والاوّل ہو السنة (٦٧٩) ولقن الشہادتین ) ١ لقولہ صلی اﷲ علیہ وسلم لقنوا موتاکم شہادة ان لاالٰہ الااﷲ والمراد الذی قرب من الموت۔(٦٨٠) فاذا مات شد لحیاہ وغمض عیناہ)
حدیث یہ ہے ۔ ان رجلا سألہ فقال یا رسول اللہ ۖ ما الکبائر ؟ قال ھن تسع فذکر معناہ وزاد وعقوق الوالدین المسلمین واستحلال البیت الحرام قبلتکم احیاء و امواتا (الف) (ابو داؤد شریف ، باب ماجاء فی التشدید فی اکل مال الیتیم ج ثانی ص ٤١ نمبر ٢٨٧٥ سنن للبیھقی ، باب ماجاء فی استقبال القبلة بالموتی ج ثالث ص ٥٧٣،نمبر٦٧٢٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو بھی قبلہ کی طرف لٹایا جائے۔تو موت سے جو قریب ہے اسکو بھی قبلے کی طرف لٹا دیا جا ئے ۔
ترجمہ: ٢ ہمارے دیار میں مختار چت لٹا نا ہے ۔ اس لئے کہ روح نکلنے کے لئے یہ زیادہ آسان ہے ۔ لیکن پہلی صورت سنت ہے۔
تشریح : مصنف فر ما تے ہیں کہ ہمارے شہر یعنی ما وراء النہر میں علماء یہی پسند کر تے ہیں کہ مرنے والے کو چت لٹا دیا جائے ، کیونکہ اس صورت میں روح آسانی سے نکلتی ہے ۔ لیکن قبلہ رخ کر نے کی چونکہ حدیث مو جود ہے اسلئے وہ طریقہ سنت ہے
ترجمہ: (٦٧٩) شہادتین کی تلقین کرے۔
ترجمہ: ١ حضور ۖ کے قول کی وجہ سے کہ اپنے مرنے والے کو لا الہ الا اللہ ، کی تلقین کیا کرو ۔ اور حدیث میں موتی ، سے مراد وہ ہے جو مرنے کے قریب ہو ۔
تشریح: حدیث میں مو تیٰ سے مرادبالکل مرا ہوا نہیں ہے ، بلکہ وہ آدمی مراد ہے جو مرنے کے قریب ہو ، چونکہ مرنے کے قریب ہے اسلئے اسکو موتیٰ کہہ دیا ہے ۔ موت کے وقت حاضرین مجلس کو چاہئے کہ دھیمی آواز میں کلمہ( لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ) پڑھے۔ تاکہ میت کو بھی پڑھنے کی توفیق ہو جائے اور ایمان پر خاتمہ ہو، اسی کو میت کو تلقین کر نا کہتے ہیں
وجہ : صاحب ھدایہ کی حدیث یہ ہے جس میں تلقین کی تر غیب دی گئی ہے ۔ عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ۔ (مسلم شریف ، کتاب الجنائز،فصل فی تلقین المحتضر لا الہ الا اللہ ص ٣٠٠ نمبر ٩١٧ ٢١٢٥ ابو داؤد شریف ، باب فی التلقین ج ثانی ص ٨٨ نمبر ٣١١٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کو تلقین کرنا چاہئے۔ البتہ اس کو پڑھنے کے لئے نہیں کہنا چاہئے کیونکہ انکار کر دیا تو کفر پر خاتمہ ہوگا۔
ترجمہ: (٦٨٠) اگر انتقال ہو جائے تو اس کی ڈاڑھی باندھ دی جائے اور اس کی آنکھیں بند کردی جائیں۔
تشریح : غمض کا معنی ہے آنکھ کو بند کر نا ۔اور شد : کا معنی ہے باندھنا ۔ جب آدمی مر جا تا ہے تو عموما اسکا منہ کھلا رہ جا تا ہے ، اور