اس کا جواب یہ ہے کہ آیت میں شکل اول ہی نہیں کیونکہ یہاں حد اوسط مکرر نہیں۔’’لاسمعہم‘‘ اول سے مراد تو یہ ہے’’ لاسمعہم فی حالۃ علم الخیر فیہم ‘‘اور ثانی سے مراد یہ ہے کہ لو اسمعہم فی حال عدم علم اﷲ فیہم خیرا۔ حاصل آیت کا یہ ہوا کہ اگر خدا تعالیٰ کو ان مین بھلائی کا ہونا معلوم ہوتا تو وہ ضرور ان کو دین کی باتیں سنا دیتے اور وہ ان کو قبول بھی کر لیتے ۔ اور اگر اس حالت میں کہ خدا کو معلوم ہے کہ ان میں بھلائی نہیں سرسری طور پر ان کو دین کی باتیں سنا دی جائیں تو وہ اعراض ہی کریں گے ۔ اب وہ اشکال رفع ہو گیا ۔ اس سے آپ کو منطق کی ضرورت معلوم ہو گئی ہو گی۔
اسی طرح علم کلام کی بھی ضرورت ہے کیونکہ قرآن میں بعض مضامین ایسے مذکور ہیں جن کا ظاہری مضمون جو عام طور پر سمجھ میں آتا ہے ، مراد نہیں مثلاً
فَثَمَّ وَجْہُ اﷲِ۔یَدَاہُ مَبْسُوْطَتَانِ۔عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی۔وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَدِہٖ۔
یعنی کسی جگہ کہا گیا ہے کہ جدھر تم منہ کرو خدا کا رخ ادھر ہی ہے کہیں فرمایا ہے کہ خدا کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں ۔کہیں فرمایا ہے کہ خدا عرش پر مستوی ہے ۔ کہیں فرمایا ہے کہ آسمان خدا کے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے تو اس سے بعض جاہلوں کو یہ شبہ ہو گا کہ خدا کے بھی ہماری طرح منہ اور ہاتھ اور پیر ہیں مگر علم کلام کے دلائل سے معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ جوارح اور مکان وزبان سے پاک ہے ۔ اسکے لیے ان چیزوں کا ثابت ہونا حقیقۃً ممکن نہیں ۔ ہاں مجازاً کوئی دوسرے معنی مراد لئے جاویں تو ممکن ہے ۔ چنانچہ علماء نے ان آیات کے معانی خدا کی شان کے لائق بیان بھی کئے ہیں ۔ اور سلف کا طرز اس بارہ میں سکوت ہے ۔ تو علم کلام سے معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ کے لیے کس صفت کا ثابت ہونا ضروری ہے اور کن کن باتوں سے اس کا پاک ہونا ضروری ہے ۔
مفید علم
اس لیے دوسرے علوم کی بھی ضرورت ہے اور وہ علوم عربی میں مدوّن ہیں ۔ لہٰذا عربی کی سخت ضرورت ہے ۔شریعت کا علم کامل بغیر علوم عربیہ کے حاصل نہیں ہو سکتا ۔ لیکن اگر کسی کو علم کامل کی فرصت نہ ہو وہ ناقص سے تو محروم نہ رہے ۔
مالا یدرک کلہ لا یترک کلہ
پس عوام نے یہ غلطی کی کہ انہوں نے اردو مین بھی علم نہ سیکھا اور علماء نے یہ غلطی کی کہ عربی تو سیکھی مگر بعضے علوم غیر نافعہ مین مشغول ہو گئے ان دونوں غلطیوں پر اس آیت میںتنبیہ ہے ۔
وَیَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرّھُمْ وَلَایَنْفَعُھُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاہ‘مَا لَہ‘ فِی الأٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُوْنَ
اس آیت میں ایک نکتہ ہے وہ یہ کہ حق تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہودیوں کو