ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ،تب کھاؤں گا ۔مگر حضرت رحمۃ اﷲ علیہ ایسے روگ نہیں پالتے تھے ۔جب کھانا واپس آیا تو نے فرمادیا کہ کھانا تو گھر میں رکھ لیا جاوے اور ان شاہ صاحب سے کہہ دیا جائے کہ خانقاہ میں جو گولر کھڑا ہے اس کے پھل بالکل حلال ہیں جس میں کوئی شبہ نہیں پس گولر توڑیں اور کھاویں ۔
خوب علاج کیا اگر وہ شخص سچا طالب حلال ہوتا تو ایسا ہی کرتا مگر اس کو تو محض تنگ کرنا اور اپنا نام کرنا مقصود تھا ۔چنانچہ جاہلوں کو بہت تنگ کیا کرتا تھا اور وہ اس کی خوشامدیں کرتے اور تلاش کر کر کے اس کے لیے حلال کھانا لایا کرتے تھے مگر حضرت کے یہاں سے جب صاف جواب مل گیا تو آپ بہت خفا ہوئے اور دوسرے ہی وقت وہاں سے چل دئیے ۔
تو صاحبو ! یہ تقویٰ نہیں بلکہ تقویٰ کا ہیضہ ہے ۔شریعت نے اس قدر غلو سے منع کیا ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ دردہ ہو جاؤ حلال وحرام کی پروا نہ کرو ۔بلکہ شریعت کا ھکم یہ ہے کہ جب تم کو بغیر تجسس کے معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص کے یہاں بالکل حرام آمدنی ہے ۔تو اس کے گھر کا کھانا مت کھاؤ اور اگر یہ معلوم ہو کہ اس کی کچھ آمدنی حرام ہے اور کچھ حلال تو اس کے گھر کا کھانا مشتبہ ہے جو فتوے کے اعتبار سے جائز ہے مگر احتیاط کرنا تقویٰ ہے اور اگر کسی کا حال کچھ بھی معلوم نہ ہو تو تم کو بد گمانی کی کچھ ضرورت نہیں اس کو حلال ہی سمجھو مگر آج کل عوام کی نظر میں اس شخص کی بہت وقعت ہوتی ہے ، جو شریعت میں غلو کرے ۔اور راز اس کا یہ ہے کہ غلو فی الدین سے امتیار پیدا ہوتا ہے اور اگر اعتدال سے کام لیا جائے تو اس سے کچھ امتیاز نہیں ہوتا ۔ شہرت اسی کام سے ہوتی ہے جو نیاہو۔
عوام کا اعتقاد
گرھی میں ایک شاہ صاحب آئے ان کی یہ عادت تھی کہ جب کوئی ان کی دعوت کرتا تو پہلے آپ مراقبہ کرتے ۔کبھی تو مراقبہ کر کے کہہ دیتے کہ ریتے یہاں آمدنی حلال ہے نہیں اس لیے میں دعوت قبول نہیں کرتا اور کبھی کہہ دیتے کہ ہاں تیری آمدنی حلال ہے تیری دعوت منظور ہے لوگوں میں بڑی شہرت ہوئی کہ واقعی شاہ صاحب بڑے بزرگ ہیں ،حرام آمدنی کبھی کھاتے ہی نہیں ۔مراقبہ کرکے معلوم کر لیتے ہیں کہ آمدنی کیسی ہے ۔مگر چند لوگ ہوشیار بھی تھے انہوں نے کہا کہ شاہ صاحب کے مراقبہ کا امتحان کرنا چاہئے ۔کیونکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ محض ظاہری آثار سے سمجھ لیتے ہوں کہ یہ شخص امیر ہے اور امیروں کییہاں ایسی ہی گڑبڑ آمدنی ہوتی ہے اور فلاں شخص مزدور خستہ حال ہے اور غریبوں کے یہاں اکثر مزدوری کیآمدنی ہوتی ہے جس میں شبہ کم ہوتا ہے اس لئے ان کا امتحان لینا چاہئے۔
چنانچہ وہ لوگ ایک کسبی کے یہاں گئے کہ تیرے پاس کوئی تازہ آمدنی کی روپیہ ہو تو ذرا ایک دوروز کے واسطے ہمیں دے دے ۔چنانچہ اس نے تاز ہ آمدنی کا