قران میں دین کی سب باتیں مذکور ہیں مگر یہ ضرور نہیں کہ سب صراحۃً مزکور ہوں بلکہ اس میں قواعد کلیہ مذکور ہیں جن سے مجتہدین مسائل جزئیہ استنباط کر لیتے یہں ۔چنانچہ ایک قاعدہ قرآن میں یہ بھی مذکور ہے ۔
ما اٰتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہوا
رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم تم کو جو کچھ (حکم ) دیں اس ک ولے لو اور جس بات سے منع کریں اس سے باز رہو ۔تو اب جتنے احکم احادیث نبویہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے چابت ہیں وہ سب اس قاعدہ کی جزئیات ہیں لہذا ہم کو حق ہے کہ بعض احکام کا چبوت احادیث سے دے دیں ۔نیز قرآن میں ایک قاعدہ یہ بھی مذکور ہے ۔
فاعتبرو ایا اولی الابصار
اے بصیرت والو ! اعتبار حاصل کرو اور اعتبار کہتے ہیں ایک نظیر کو دوسری نظیر پر قیاس کرنے کو ۔اس سے معلوم ہوا کہ بعض احکام قیاس سے بھی ثابت ہوتے ہیں وعلیٰ ہٰذا القیاس۔پھر ہم کو اس پابندی کی کیا ضرورت ہے کہ ہر مسئلہ کا جواب قرآن ہی سے دیں ۔
آج کل ایک دوسرا فرقہ قرآنیہ پیدا ہوا ہے جو قرآن کے سوا کچھ نہین مانتے ۔یہ غیر مقلدوں سے بھی بڑھ گئے ۔وہ تو قیاس ہی کو نہ مانتے تھے انہوں نے حدیث کو بھی اڑا دیا ۔اس فرقہ کے ایک عالم سے یہ پوچھا گیا کہ عدد رکعات کا ثبوت قران سے دو کیونکہ قرآن میں تو مطلق نماز کا حکم ہے اور بعض آیات مین نماز کے اوقات بھی اشارۃً مذکور ہیں لیکن عدد رکعات کہ صبح کی دورکعتیں فرض ہیں اور ظہر کی چار ۔اس کا بیان قرآن میں کہیں بھی نہیں تو تم لوگ یہ عدد کہاں سے سمجھے ہو ۔اگر احادیث سے سمجھے ہوتو احادیث کا حجت ہونا مسلم ہوگیا ورنہ قرآن میںدکھلاؤ کہ اعداد کہاں مزکور ہیں ۔اس نے ایک دن کی مہلت مانگی ۔اسی سے ان کے مذہب کا لچر ہونا معلوم ہوگیا کہ ابھی تک عدد رکعات کی دلیل معلوم نہیں اور عمل پہلے ہی سے شروع کردیا ۔غرض اگلے دن انہوں نے بہت کچھ سوچ ساچ کر یہ آیت پڑھی۔
الحمد ﷲ فاطر السمٰوات والارض جاعل الملٰئکۃ رسلا اولی اجنحۃ مثنٰی وثلث ورباع۔
تمام حمد اﷲ کے لیے ہے جو آسمان وزمین کا پید اکرنے ولا ہے فرشتوں کو بازوؤں والا بنانے والا ہے ،دودو اور تین تین اور چار چار ۔یہ دلیل تھی نماز کی رکعتوں کے اثبات کی ۔سبحان اﷲ ! وہی مثال ہوئی مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ۔بھلا اس آیت میں فرشتوں کے بازوؤں کے شمار کا ذکر ہے یا رکعات صلوٰۃ کے عدد کا ۔اگر محض عدد کا ذکر ہی اسے کے لیے کافی ہے تو ایک یہی آیت کیا اور بھی آیتیں ایسی مل جائیں گی۔چنانچہ ارشاد ہے۔
فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلث ورباع
یہان بھی وہ عدد مذکور ہے جو پہلی آیت میں ہے باقی اس سے تو غرض ہے ہی