جو دریا میں غوطے لگا رہا ہے کہ اس کو کن کن مصائب کا سامنا ہو رہا ہے ۔
اس شعر کے متعلق ایک لطیفہ ابھی قلب پر وارد ہوا ہے ۔ وہ یہ کہ ساحل دو ہوتے ہیں ۔ ایک ادھر کا ساحل اور ایک ادھر کا ساحل جس پر دریا کو عبور کر کے پہنچتے ہیں ۔ تو اس شعر میں ادھر کا ساحل مراد ہے ادھر کا ساحل مراد نہیں ۔ خلاصہ یہ کہ جو شخص ابھی تک ادھر کے ساحل ہی پر کھڑا ہے اور دریا میں اس نے قدم بھی نہیں رکھا اس کو دریا میں غوطہ لگانے والے کا حال کچھ معلوم نہیں ۔ اور جو شخص دریا میں گھس کر تیرتا ڈوبتا دوسرے ساحل پر پہنچ چکا ہو یعنی سلوک طے کر چکا ہو اس کو دریا میں چلنے والے کا حال معلوم ہو سکتا ہے کیونکہ اس پر ایک وقت ایسا گزرا ہے جب کہ وہ دریا میں تیرتا اور ڈوبتا ہوا چل رہا تھا ۔ اگرچہ اس وقت دوسرے ساحل پر پہنچ جانے کی وجہ سے وہ چین میں ہے ۔ پس اس کو سالکین پر اعتراج کا حق بھی حاصل پس اہل ساحل دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو دریا میں گھسے ہی نہیں یہ تو دریا کی حالت سے بالکل ناواقف ہیں ۔ دوسرا وہ جو دریا کو عبور کر کے ساحل پر پہنچا ہے ۔ ظاہر میں اس کی حالت بھی اہل ساحل کے مشابہ ہے ۔ دونوں چین میں نظر آتے ہیں ۔ مگر فرق یہ ہے کہ اس کو مصاب جھیلنے کے بعد چین نصیب ہوا ہے اور پہلے ساحل والوں کو مصائب کا سامنا ہی نہیں ہوا ۔ تو دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔ اس لیے اس کو اعتراض کا حق ہے مگر کورے اندھوں کو صاحب حال پر اعتراض کا کچھ حق نہیں ۔
اسی واسطے حاجی صاحب اس شخص پر اعتراض کرتے ، ان کو اس کا حق حاصل تھا ۔ مگر اس لیے اعتراج نہیں کیا کہ وہ اس حالت کی حقیقت سے واقف تھے ۔ اور جنہوں نے اعتراض کیا ان کو یہ حق حاصل نہ تھا ۔ غرض عام لوگ یہ سمجھے تھے کہ اس صورت میں نماز باطل ہوگئی کیونکہ فارسی و اردو میں مطلقاً کچھ پڑھنا عوام کے نزدیک مفسدِ صلوٰۃ ہے ۔ تو اس غلطی کا منشا وہی ہے ۔ یہ لوگ عربی کو تو خدا کی زبان سمجھتے ہیں اور اردو اور فارسی کی بندوں کی زبان ۔ حالانکہ اگر کوئی مضمون فی نفسہٖ مفسد ہو تو اگرچہ وہ عربی ہی میں کیوں نہ ہو مفسد ہو گا ۔ جیسے مولوی مغیث الدین نے’’ قم ‘‘کہا تھا اور اس سے نماز فاسد ہو گئی تھی ۔
علماء کی کوتاہی
اس غلطی کا منشاء زیادہ تر علماء کی کوتاہی ہے کہ انہوں نے کبھی صاف صاف یہ نہیں کہا کہ اردو میں علم دین پڑھ لینے سے بھی وہ فضائل حاصل ہو سکتے ہیں جو احادیث وقرآن میں علم کے لیے وارد ہیں حالانکہ حدیث وقرآن میں کہیں عربی کی تخصیص نہیں ۔ چنانچہ اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ علم مضر وہ ہے جو آخرت میں کام نہ آوے اور نافع وہ ہے جو آخرت میں کام آوے ۔ اس میں کہیں یہ قید نہیں کہ وہ عربی میں ہونا چاہئے مگر شاید علماء نے یہ بات صاف