واقعی تم خوب سمجھے۔
پھر میں نے کہاکہ تم انگریزی کیوں پڑھتے ہو؟ کہنے لگ ہم کیا کریں ابا ہی پرھواتے ہیں ۔ میں نے اس کے والد سے کہا کہ تم نے ناحق اس لڑکے کو انگیریزی میں ڈالا ، اس کو تو عربی ہی سے مناسبت معلوم ہوتی ہے پھر یہواقعہ میں نے ان کو سنایا وہ بھی آخر اسی کے باپ تھے ۔ کہنے لگے کہ اس کوعربی سے تو خود ہی مناسبت ہے اس لیے اس کو تو وہ خود حاصل کر لے گا ۔ اور انگیرزی سے اس کو مناسبت ہے نہیں وہ میں نے پڑھادی ۔ کیونکہ اس کو وہ خود حاصل نہ کرتا اور آج کل اس کی بھی ضرورت ہے ۔ میں نے کہا کہ اس کو عربی سے آج تو مناسبت ہے مگر مدّت تک انگریزی پڑھنے کے بعد یہ حالت نہیں رہے گی ۔ مگر انہوں نے اس کو انگریزی ہی میں رکھا ۔ چنانچہ اب تک وہ انگریزی پڑھ رہا ہے ۔ لیکن اب بھی اس میں ایک رگ ملانوں کی ہے جس سے امید ہے کہ انشاء اﷲ ایک دن وہ ادھر ہی کھنچے گا ۔
تو صاحبو! عربی پڑھنے میں یہ بات ہے جو اس بچے نے بتلائی کہ قرآن وحدیث کی پوری سمجھ عربی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی ۔اگر کوئی یہ کہے کہ ہم ترجمے دیکھ کر سب سمجھ لیں گے ۔ سو یاد رکھو کہ ترجموں سے کلام کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی ۔
رفع اشکالات
علم ذوق کا نام ہے اور ذوق جبھی حاصل ہو گا جب کہ قرآن وحدیث کی زبان میں اس کو پڑھا جائے چنانچہ مشاہدہ ہے کہ اہل علم کو جو لطف قرآن میں آتا ہے وہ ترجمہ دیکھنے والے کو نہیں آسکتااور قاعدہ یہی ہے کہ جو کتاب جس زبان ی ہو اس کا لطف جبھی آسکتا ہے جب کہ اس زبان کو آپ جانتے ہوں ۔ بہت سے اشکالات ترجمہ دیکھنے سے قرآن میں پیدا ہو جاتے ہیں جس کا جواب ذوق لسان ہی سے ہو سکتا ہے ۔ بہت سے اشکالات نحوو صرف کے نہ جاننے سے پیدا ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان علوم آلیہ کی بھی ضرورت ہے ۔ بلکہ کچھ منطق وکلام کی بھی ضرورت ہے کیونکہ بعض اشکالات ان ہی علوم کے جاننے سے رفع ہو جاتے ہیں ۔ بعض اشکالات سے ان علوم کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی ۔ اور اس کے نظائر بہت ہیں مگر میں نمونہ کے لیے چند مثالیں بیان کرتا ہوں جو طالب علموں کے سمجھنے کی باتیں ہیں۔
ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ مجھ کو کچھ پوچھنا ہے مگر اول اس آیت کا ترجمہ کردو
وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَھَدٰی
میں سمجھ گیا اور میں نے ترجمہ اس طرح کیا کہ ’’پایا آپ کو ناواقف پس واقف بنا دیا‘‘یہ ترجمہ سن کر وہ میرے منہ کو تکنے لگے ۔ میں نے کہا کہ اب پوچھو کیا پوچھتے ہو ۔ کہنے لگا کہ اب تو وہ اشکال ہی نہ رہا ۔ میں نے کہا تو کیا اپ کا