اوررازی سے کچھ کم تھے۔واﷲ بعض تحقیقات میں یہ حضرات ان سے بھی بڑھے ہوئے تھے مگر جب تم احمقوں کو دین کے واسطے منتخب کر دگے توظاہر ہے کہ تمہارے مقتدایہی احمق بنیںگے۔ ان میںعقل ہم کہاں سے پیداکر دیں ؎
شمیشرنیک ز آہنِ بد چوں کند کسے
ناکس بتربیت نشود اے حکیم کس
علم دین کی برکت
مگر ان احمقوں کو تو ان کی حماقت ہی مبارک ہو گئی ۔ اگر وہ احمق نہ ہوتے تو ان کو بھی انگریزی میں ٹھونس کر آپ جہنم کا کندہ بنا دیتے ۔ اب وہ دین میں لگ گئے ۔ خدا کو راضی کرنے کا طریقہ ان کو معلوم ہو گیا اور انشاء اﷲ وہ جنت کے مالک ہوں گے ۔ قیامت کے دن ان کی حماقت ان کے کام آئے گی ۔ اور دنیا میں بھی وہ علمِ دین کی برکت سے تمہارے مقتدا ہو گئے ۔
اس حماقت کے مبارک ہونے پر مجھے عارف شیرازی رحمۃ اﷲ علیہ کا قصہ یاد آگیا ۔ وہ یہ کہ بالہام غیبی حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ کو حافظ ؒ کی تربیت کا حکم کیا گیا اور حکم بتلا دیا گیا کہ حافظ فلان رئیس شخص کے بیٹے فلاں جگہ کے رہنے والے اور ایسے ایسے ہیں ۔ چنانچہ حضرت شیخ منازل طے کرتے ہوئے شیراز پہنچے ۔ اور حافظ صاحب کے والد کے یہاں مہمان ہوئے انہوںنے بہت تعظیم اور خاطر داری کی اور پوچھا کہ حضرت نے کیسے کلیف فرمائی ۔ فرمایا کہ ہم تمہارے بیٹوںکو دیکھنا چاہتے ہیں ۔تم اپنی اولاد کو ہمارے سامنے پیش کرو ۔ انہوںنے اپنے لڑکوں کو پیش کر دیا جو متعدد تھے ۔ شیخ نجم الدین کبریٰ نے سب لڑکوں کو دیکھا مگر جس کی تلاش تھی وہ ان میں نہ ملا فرمایا تمہارے اور کوئی لڑکا نہیں ؟ انہوں نے کہا کوئی نہیں۔ وہ حافظ کو کالعدم سمجھتے تھے شیخ نے فرمایا کہ ضرور ہے ۔حضرت حافظ صاحب کے والد نے کہا کہ ہاں حضور ایک لڑکا دیوانہ سا ہے ۔ میں نے اس کو اسی لیے پیش نہیں کیا کہ وہ تو پاگل ہے ۔ اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے ۔ دیکھئے انہوں نے حضرت حافظ صاحب کو ایسا کالعدم سمجھا کہ ایک بار تو انکار ہی کر دیا کہ میرے اور لڑکا ہی نہیں ۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ مجھے اسی دیوانہ کی ضرورت ہے اسی کو بلاؤ ۔ حافظ صاحب ؒ کے والد نے نوکر سے کہا کہ ارے اس باولے کو ذرا تلاش کر لا ۔ کہیں جنگل میں مارامارا پھر رہا ہو گا ۔ چنانچہ نوکر گیا تو واقعی وہ جنگل میں پھر رہے تھے اور اس حلیہ سے تشریف لائے کہ پندلیوں تک کیچڑ لگا ہوا تھا ۔بال کھلے ہوئے ۔لباس بھی خراب وخستہ،جونہی حضرت حافظ نے قدم رکھا اور شیخ نجم الدین کبریٰ ؒ پر نظر پڑی تو فوراً پہچان گئے کہ یہ شیخ کامل اور میرے مربی ہیں ۔ اسی وقت بے ساختہ یہ شعر پڑھا ؎
آنانکہ خاک را بنظر کیمیا کنند