الحال بھی نہیںہیں۔ جب حضرت حاجی صاحب کے سامنے درس شروع ہواتوآپ نے اس شعر کوسن کربطور تفسیرکے ایک ایسا کلمہ فرمادیا کہ سارے اشکالات ختم ہوگئے اور معلوم ہوا کہ یہ مضمون شاعرانہ نہیں بلکہ سچی بات ہے ؎
حملہ شاں پیدا و ناپیدااست باد
آنچہ ناپیدا است ہرگز مباد
حضرت حاجی صاحب فرماتے ہیں اے ازدل ما۔سبحان اﷲ ! اس ایک کلمہ سے شعر میں جان پڑگئی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جان تو پہلے پڑی ہوئی تھی مگر ہم سمجھے نہ تھے ۔حاجی صاحب کے ارشاد سے حقیقت ظاہر ہوگئی یعنی مطلب یہ ہے کہ جوچیز مخفی ہے خدا کرے وہ دلوں سے کم نہ ہو ۔ اب کوئی اشکال نہ رہا اور معلوم ہوگیا کہ محقق کا کلام محقق ہی ہوتا ہے البتہ اس کے سمجھنے کے لیے بھی محقق ہونا ضروری ہے اسی طرح اس شعر میں بھی مبالغہ نہیں ہے ؎
بے تو جن دوزخ است اے دلربا
باتو دوزخ جنت است اے جانفرا
کیونکہ بہادری تو جب ہو کہ دوزخ میں اس کو عذاب بھی ہواور اس شخص کے لیے رضاء الٰہی کے ساتھ دوزخ میں عذاب ہی نہ رہے ،کیونکہ اس کے نزدیک تو عذاب نام فراق کا ہے اور جب خدا تعالیٰ کی رضا اس کو دوزخ میں بھی حاصل ہے تو فراق کہاں یہ تو عین وصل ہے ۔غرض عاشق کے نزدیک ظاہری تکالیف کا نام عذاب ہے ہی نہیں ،وہ صرف فراق اور ناراضی محبوب کو عذاب سمجھتا ہے ۔حضرت عارف شیرزای فرماتے ہیں ؎
شنیدہ ام سخن خوش کہ پیر کنعاں گفت
فراق یار نہ آں مے کند کہ بتواں گفت
حدیث ہول قیامت کہ گفت واعظ شہر
کنایتیست کہ از روزگار ہجراں گفت
او رراز اس میں یہ ہے کہ رضا وتفویض ومحبت ومعیت کی لذت میں وہ آلام وتکالیف ایسے مغلوب ہوجاتے ہیں کہ ان کا اثر معتد بہ محسوس نہیں ہوتا ۔پس اگر فرشتوں کو جہمنم میں عذاب ظاہری بھی ہوتا تب بھی وہ اس پر راضی ہوتے کیونکہ خدا تعالیٰ کی رضا اسی میں ہوتی اور وہ مقبول بندے رضا کے طالب ہیں ۔مگر ان پر تو عذاب بھی نہیں ہے ۔غرض ان کے نزدیک جہنم میں رہنا ویسا ہی ہے جیسا کہ جنت میں رہنا ۔مقصود میرا اس بیان سے یہ تھا کہ اصل مضرت خدا تعالیٰ کی ناراضی ہے اس کے سامنے دنیا کا نفع ونقصان کوئی چیز نہیں ۔
علت اور شریعت
بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر نیت اچھی ہو اور کسی کا نفع ہو تو سفلی عمل بھی جائز ہے جس میں شیاطین سے استعانت ہوتی ہے ۔یہ خیال بالکل گلط ہے ۔اسی طرح آج کل یہ مرض پیدا ہوا ہے کہ بعض لوگ گناہوں کے متعلق وجہ