جانوروں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں ،جب تک کہ اس کے مقدر میں حفاظت ہے ۔ اسی طرح لڑائی میں دشمن کے حملہ سے انسان کو بچاتے ہیں خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان ۔ایسے ہی نباتات کی نشوونما کے لیے کچھ ملائکہ مقرر ہیں جو کافروں اور مسلمانوں کے کھیتوں اور باغات کی نشوونما کرتے ہیں ۔غرض امور تکوینیہ میں مسلمان اور کافر دونوں برابر ہیں اور فرشتے دونوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔حالانکہ شرعاً کافر کی امداد واعانت اس طریقہ سے جائز نہیں ۔مگر ہمارے واسطے جائز ہے کیونکہ ان کے سپرد کیے گئے ہیں وہ اسی پر مامور ہیں اور یہی شان ہوتی ہے اقطاب اہل خدمت کی کہ امور تکوینیہ ان کے بھی سپرد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے بعض دفعہ وہ کسی کافر سلطنت کی حمایت کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اسلامی سلطنت مغلوب اور کافر سلطنت غالب ہو جاتی ہے ۔
مجذوب اور سالک کا فرق
مگر ایسے اقطاب مجذوبین ہوتے ہیں ۔سالک ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ سالک شریعت کا مکلف ہے اور شرعاً کفار کی حمایت واعانت مسلمانوں کے مقابلہ میں بالکل حرام ہے ۔اور مجذوبین مکلف نہیں ہوتے مگر رتبہ میں اول سالکین ہی ہیں ۔مجذوبوں کی مثال ایسی ہے جیسے سپاہی اور کوتوال کہ ان کے سپرد شہر کا انتظام ہوتا ہے شہر کے تمام حالات کی ان کو اطلاع ہوتی رہتی ہے اور سالک کی مثال ایسی ہے جیسے بادشاہ کا محبوب کہ اسے شہر کے حالات کی کچھ خبر نہیںہوتی کہ کیا ہو رہا ہے ۔ہاں بادشاہ کا مزاج شناس اس درجہ ہوتا ہے کہ کوتوال کو اس کی ہوا بھی نہیں لگتی ۔
سلطان محمود کو ایاز سے خاص محبت تھی ۔حالانکہ اس کی معلومات سلطنت کے متعلق ہر گز وزیر کے برابر نہ تھیں بلکہ نظامِ سلطنت کے متعلق ہزاروں آدمی اس سے زیادہ باخبر تھے ۔اسی لیے لوگوں کو حیرت تھی کہ سلطان ایاز کو اتنا کیوں چاہتا ہیں ۔مگر ایاز میں ایک بات ایسی تھی کہ وزیر کو اس کی ہوا بھی نہ لگی تھی ۔وہ یہ کہ سلطان کا مزاج شناس تھا ۔اگر اس سے شہر کے حلات دریافت کرو تو اسے کچھ بھی علم نہ تھا ۔ لیکن محمود کا مزاج پوچھو تو اس سے زیادہ اس کا جاننے والا کوئی نہ تھا یہی وجہ تھی کہ بعض اوقات ایاز ہی محمود سے بات کر سکتا تھا اور کسی کی مجال نہ ہوتی تھی ۔
اسی طرح سالکین خدا تعالیٰ کے گونہ مزاج شناس ہیں یعنی اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کا طریقہ جانتے ہیں ۔قرب حاصل کرنے کا راستہ بتلا سکتے ہیں۔اور اگر ان سے یہ پوچھ کہ فلاں مقدمہ کیا نتیجہ ہو گا فلاں واقعہ کس طرح ہو گیا تو اس کا جواب ان کے پاس یہ ہوتا ہے ۔
ماقصّئہ سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
از ما بجز حکایت مہر و وفا مپرس