ایک اور شخص گاؤں میں گیا اور وہاںکے ملا سے پوچھا کہ بتلاؤ ایمان نقطہ دار ہے یا بے نقطہ دار ۔ ظاہر میں تو اس کے جواب میںیہی کہا جاتا کہ منقوط ہے کیونکہ ایمان میں ’’یؔ‘‘ اور ’’نونؔ‘‘ منقوط ہیں ۔ مگر اس کا یہ مقصود ہی نہ تھا ۔وہ ملا بڑا ہو شیار تھا ۔ اس نے کہا کہ ایمان غیر منقوط ہے ۔ ممتحن نے پوچھا! کیسے؟ اس نے کہا کہ دیکھو ایمان ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کا نام ہے اور اس کلمہ میں کسی حرف پر نقطہ نہیں اس پر وہ ممتحن بولا کہ تم نے جواب تو صحیح دیا مگر وجہ غلط بیان کی ۔ اس نے کہا ، اچھا تم صحیح وجہ بتلاؤ ۔ کہنے لگے کہ ایمان اس واسطے غیر منقوط ہے کہ جب تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تم مسلمان ہو تو وہ جوب میں کہتا ہے الحمد ﷲ اور دیکھو اس میں نقطہ نہیں ۔ اس ملا کو فکر ہوئی کہ کسی طرح اس کی بات گاؤں والوں کے سامنے غلط کرنا چاہئے ۔ کہنے لگا یہ وجہ بالکل صحیح نہیںہے ۔ کیونکہ لوگ اس سوال کے جواب الحمد ﷲ نہیں کہتے بلکہ یوں کہتے ہیں’’ شکر الحمد ﷲ‘‘ اور اس کے جواب میں’’ شین ؔ ‘‘ پر نقطے ہیں ۔ اس لیے وجہ وہی صحیح ہے جو میں نے بیان کی ۔ بس اتنی بات پر ملا جیت گیا اور گاؤں میں شہرت ہو گئی کہ ہمارا ملا بڑا پڑھا لکھا ہوا ہے ۔
غرض گاؤں والوں کو پڑھا دینے میں یہ بھی نفع ہے کہ تم گاؤں میں جمے رہو گے ۔ کوئی ان کوبہکا نہ سکے گا۔ یہ تو ہنسی کی بات تھی ۔ اگر تم جم بھی نہ سکو تو تو تمہارا اجر خدا کے ذمہ ہے ۔ ثواب تو کہیں نہیں گی ا۔ یہ کیا تھوڑی بات ہے ۔ اس لیے تم روٹیوں کی فکر نہ کرو خدا کو راضی رکھنے کا قصد کرو ۔ عالم کو روزی کا فکر نہ کرنا چاہئے اس کی تو یہ شان ہونی چاہئے۔
اے دل آں بہ کہ خراب از ے گلگوں باشی
بے زر و گنج بصد حشمت قاروںباشی
در رہ منزل لیلیٰ کہ خطرہاست بجاں
شرط اول آنست کہ مجنوں باشی
اور عالم کو اپنی فاقہ مستی پر نازاں ہونا چاہئے ۔ مخلوق کے روپے پر نظر نہ کرنی چاہئے ۔ اور یہ کہنا چاہئے ۔
ما اگر قلاش و گر دیوانہ ایم
مست آں ساقی و آں پیمانہ ایم
اور ؎
اوست دیوانہ کہ دیوانہ نہ شد
مرعسس را دید و درخانہ نہ شد
علم کی کیمیا
میں سچ کہتا ہوں کہ علم مین خود وہ لذت ہے جس کے سامنے تمام وہ لذتیں ہیچ ہیں ۔ عالم ہو کر دنیا کی طمع ہو تعجب ہے ۔ دنیا ہے کیا چیز؟ علم کے سامنے اس